Pages

Showing posts with label Education. Show all posts
Showing posts with label Education. Show all posts

Friday, 18 November 2011

اصلاح کیسے کریں؟

مجھے لگتا ہے کہ ہم سے پہلے کی نسل کے لوگوں میں بھی خامیاں تھیں مگر وہ انہوں نے دُور کر لیں۔ ہم کیسے کریں؟

یہ سوال مجھے کچھ عرصہ پہلے ایک نوجوان طالب علم کی طرف سے ایمیل میں موصول ہوا۔ اُردو بلاگ کی ابتدائی پوسٹس اِسی سوال کا جواب ہیں: تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں اپنے معاشرے کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل بنائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے بارے میں جانتے ہوں اور معاشرے کی اجتماعی رائے پر عمل درآمد کروانے کے لیے تیار بھی ہوں۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ میں جو کچھ بھی کہہ سکتا ہوں وہ اس مختصر سی بات میں آ جاتا ہے۔ باقی محض تشریح ہے، سو وہ بھی پیش کر رہا ہوں۔

اپنے معاشرے کے بارے میں جاننے کی چیزیں پانچ ہیں: تاریخ، ادب، سیاست، مذہب و سائنس اور تعلیم۔ 
  • تاریخ کا مطلب ہے کہ ہماری قوم نے اجتماعی طور پر کون کون سے اہداف مقرر کیے اور انہیں کس طرح حاصل کیا۔
  • ادب اُس چیز کا نام ہے جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جو ہدف قوم نے اپنایا ہے اُس میں کون سے آئیڈیلز یعنی مقاصد چُھپے ہوئے ہیں۔
  • سیاست اُن آئیڈیلز کو عملی جامہ پہناتی ہے جو ہمارے ادب سے برآمد ہوتے ہیں۔
  • مذہب اور سائنس اُس حقیقت کے معانی سمجھاتے ہیں جو مندرجہ بالا عمل سے ہمارے اطراف میں وجود پاتی ہے۔
  • تعلیم ان معانی کو اگلی نسل تک پہنچانے کا نام ہے۔ 

اگر ہم اپنے معاشرے کے بارے میں یہ پانچ چیزیں جانتے ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم معاشرے کو جان گئے۔ ورنہ نہیں جانے۔  

Monday, 14 November 2011

ہم کیوں نہیں مانتے؟

پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا کہ ہماری دو مشکلیں ہیں: ہم جانتے نہیں اور ہم مانتے نہیں۔ 


کچھ ماہ پہلے میں نے اپنے بعض روشن خیال دوستوں کو پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے دیکھا جس پر ایک ایسا مطالبہ تحریر تھا جسے پاکستانی عوام کی اکثریت شاید کبھی قبول نہ کرتی۔ مطالبہ کرنے والے دوستوں نے اپنے لیے جمہوری فورم یا کوئی ایسا ہی نام تجویز کیا تھا۔ میں نے پوچھا، "جمہوریت سے آپ کی مراد اکثریت کی حکومت ہے ناں؟" انہوں نے بھڑک کر جواب دیا، "ہرگز نہیں۔" یہ بڑی بدقسمتی ہے پاکستانی عوام کی۔ انہیں جمہوریت کے نام پر جمہوریت سے محروم کیا جاتا ہے۔

روشن خیال طبقے کے خیال میں عوام اِس لیے فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ مذہبی ہیں۔ دوسری طرف مذہبی طبقہ انہی عوام کو فیصلے کے حق سے محروم کرنے کے لیے یہ الزام لگاتا ہے کہ یہ مذہب سے دُور ہیں۔

اس ملک کی آزادی برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو دو اصول قائم کیجیے: اول، معاشرے میں وہ ہو گا جو معاشرہ چاہے گا۔  دوم، آپ کو اُس کی آزادی ہونی چاہیے جو آپ چاہیں۔

دوسروں کی بات چھوڑیے۔ کیا آپ یہ دونوں اُصول اپنانے پر تیار ہیں؟ مجھے آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ اس دوران آپ یہ ویڈیو دیکھیے۔ اِس کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں میرے ایک اُستاد بھی موجود ہیں۔

Sunday, 6 November 2011

تعلیم کس چیز کی؟

ہم مشرق کے مسکینوں کا دِل مغرب میں جا اٹکا ہے
 پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا کہ تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھال سکیں۔ اس کے لیے دو  باتیں ضروری ہیں:  اپنے معاشرے کے بارے میں جانتے ہوں، اور مانتے ہوں۔ 

کوئی غیر قوم بھی کہیں حکومت کرتی ہے تو اُس معاشرے کے بارے میں گہری معلومات حاصل کرتی ہے۔ البتہ ضروری نہیں کہ وہ اُس معاشرے کی خواہشات کا احترام بھی کرتی ہو۔

انگریزوں نے جنگِ پلاسی کے کچھ ہی عرصہ بعد کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کر لیا تھا جس کا مقصد انگریز افسروں کو برِصغیر کے رہن سہن، زبان، مذہب اور تاریخ وغیرہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنا تھا۔ 

چنانچہ انگریز افسران اس ملک کے بارے میں اچھی خاصی معلومات حاصل کرتے تھے، یہاں کے رہن سہن سے واقف ہوتے تھے یہاں تک کہ ان میں سے بعض اُردو میں شاعری بھی کرتے تھے۔ تب کہیں انگریز یہاں حکومت کرنے کے قابل ہوئے۔

وہ غیر تھے۔ اب ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ اپنے معاشرے کے بارے میں کیا اُتنی بھی آگاہی ہمیں ہے جتنی انگریز افسروں کو ہوتی تھی؟

یہ ہماری پہلی مشکل ہے کہ ہم اپنے بارے میں جانتے نہیں ہیں۔ ہماری دوسری مشکل یہ ہے کہ ہم اپنی بات مانتے نہیں ہیں۔ اُس کے بارے  میں اگلی دفعہ عرض کروں گا۔ انتظار فرمایے:۔ 

Friday, 4 November 2011

تعلیم کا مقصد

یہ گدھا نہیں ہمارا معیارِ تعلیم ہے۔
بلند ہو رہا ہے۔
 ہم اپنا معیارِ تعلیم کس طرح بلند کر رہے ہیں، تصویر ملاحظہ فرمایے۔

گاڑی ہمارا تعلیمی نظامِ ہے، اُس کے آگے جو معزز جانور بندھا ہوا ہے وہ ہمارا معیارِ تعلیم ہے۔ گاڑی میں اِتنے بنڈل رکھ دیے گئے ہیں کہ بیچارہ معیارِ تعلیم  ہوا میں معلق ہو گیا ہے۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، شائد یہ وہاں پہنچ جائے کیونکہ اب اِس کا رُخ آسمانوں کی طرف ہو گیا ہے۔ مگر زمین پر تو دو قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔

تعلیم کو سب اچھا کہتے ہیں مگر کوئی نہیں بتاتا کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے۔ گھسی پٹی باتیں مت کیجیے۔ اچھا انسان وغیرہ بننے کے لیے تعلیم کوئی شرط نہیں۔ تہذیب اور شائستگی میں بھی آج کل تو اَن پڑھ لوگ انگریزی پڑھے ہوئے نوجوانوں سے آگے نظر آتے ہیں۔ دنیاوی کامیابی کی بات بھی مت کیجیے کہ بقول ابن انشا: تعلیم بڑی دولت ہے مگر جس کے پاس تعلیم ہوتی ہے اُس کے پاس دولت کیوں نہیں ہوتی اور جس کے پاس دولت ہوتی ہے اُس کے پاس تعلیم کیوں نہیں ہوتی؟

تعلیم کا صرف ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ اپنے معاشرے کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہو سکیں۔ آپ جہاں رہتے ہیں وہاں کے حکمراں بن جائیں۔ 

مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ میں ضرور پہنچیں۔ بلکہ جس شعبے میں بھی ہوں اپنے ملک کو چلانے، اُس کی راہ متعین کرنے اور معاشرے کے بارے میں فیصلے کرنے میں آپ اُتنا ہی حصہ لے رہے ہوں جتنا کہ حکومت۔ بلکہ حکومت کا کام صرف آپ کے فیصلوں کو نافذ کرنا ہو۔  

کیا ہماری تعلیم ہمیں اِس کے لیے تیار کرتی ہے؟ کیا یہ تعلیم ہمیں اِن معانی میں یا کسی بھی معانی میں "حکمرانی" کے قابل بناتی ہے؟

یہ مت کہیے کہ ہمارا معاشرہ ہی ایسا ہے کہ صرف جاہل اور دولتمند منتخب کیے جاتے ہیں۔ محمد علی جناح سے زیادہ ووٹ کس نے حاصل کیے ہوں گے؟ علامہ اقبال بھی اسمبلی کا الیکشن لڑے اور کامیاب ہوئے۔ ہمارے پہلے وزیراعظم ایک نواب کے بیٹے سہی مگر وزیراعظم بننے تک اُن کے پاس شاید صرف پھوٹی کوڑی ہی رہ گئی تھی اور مَرتے ہوئے تو بیوی بچوں کے لیے سر چھپانے کو  چھَت بھی نہیں چھوڑ کر گئے۔

وہ ہمارا آغاز تھا۔ اگر اُس کے بعد جاہل، ظالم اور حرام خور ہم پر حکومت کرنے لگے تو وجہ یہی تھی کہ انگریزوں کے جاتے ہی ہم نے نظامِ تعلیم بدل دیا۔ یہ اچھی بات تھی۔ مگر دانشوروں کی عقلوں پر پتھر پڑے ہوئے تھے کہ نیا نظامِ تعلیم بھی مغربی ماہرین ہی سے بنوایا۔ یعنی شکار خود شکاری کے پاس گیا کہ رنجش ہی سہی، دل ہی دُکھانے کے لیے آ۔

ذرا اُردو بازار کا چکر لگا کر پرانی درسی کتابیں تلاش کیجیے۔ معلوم ہو گا کہ 1953کے لگ بھگ ہماری درسی کتابیں موسسہ فرینکلن کی مدد سے تیار ہونے لگی تھیں۔ سِلور برڈٹ کمپنی دیدہ زیب کتابیں اُردو میں تیار کر کے ہمیں دے رہی تھی۔ غیر کی دہلیز پر ماتھا ٹیکنے سے معیارِ تعلیم بلند ہو رہا تھا۔

ہمارا معیارِ تعلیم اُسی طرح بلند ہوا جیسے تصویر میں گدھے کے پاوں بلند ہوئے ہیں۔ تعلیم نے ہمیں یہ نہیں سکھایا کہ اپنے ملک کی گاڑی کو دو قدم بھی آگے کیسے بڑھایا جاتا ہے۔ اپنے معاشرے کے لیے کوئی نئی راہ اختیار کرنی ہو تو کیسے کرتے ہیں؟

آپ نے بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ملک پر حکومت کیسے کی جاتی ہے؟ نہیں معلوم ناں۔ آئیے اِسی بات پر ویڈیو دیکھتے ہیں:

Wednesday, 2 November 2011

تعلیم ایک زہر

اُردو میں بلاگ لکھنے کا مجھے تجربہ نہیں ہےلیکن محسوس ہوتا ہے کہ بعض باتیں
 اُردو میں زیادہ دلچسپ معلوم ہوں گی۔ اس لیے "تاحکمِ ثانی" اس بلاگ کو اُردو کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ 

ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پرائیویٹ چینلوں کی وجہ سے نئی نسل اُس اُردو سے بالکل دُور ہو رہی ہے جو ہماری نسل کو سرکاری ٹی وی اور ریڈیو وغیرہ کی بدولت مفت میسر تھی۔ یہ الفاظ "تاحکم ثانی" اور "٘مختص" اسی ورثے کا حصہ ہیں جو بچپن میں پی ٹی وی کے خبرنامے میں اتنی دفعہ سنے کہ یہ پوسٹ لکھتے ہوئے بلاوجہ استعمال کرنے کو دل چاہا۔ چنانچہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ شاید اُردو میں بلاگ لکھ کر نوجوان پڑھنے والوں کو اُردو سے قریب لانے کی اُس کوشش میں حصہ لے سکوں جو بہت سے دل جلے اور دردمند آج کل کر رہے ہیں  [ان میں سے 
بعض اگر کرنا چھوڑ دیں تو اُردو دوبارہ مقبول ہو جائے گی]۔

بات کُھل گئی ہے تو کیوں نہ کُھل کر کی جائے۔ وہ تمام لوگ جو یہ بلاگ پڑھ رہے ہیں اُن میں سے جن کی عمر تیس برس سے کم ہے میں اُن سب سے یہ کہہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو کچھ بھی پڑھایا جاتا ہے اور پڑھایا گیا ہے وہ آپ کو ملک اور قوم کے کسی کام آنے میں مدد نہیں دے سکتا۔ خواہ آپ کا مضمون کوئی بھی رہا ہو، اساتذہ کوئی بھی رہے ہوں اور خواہ آپ نے کہیں سے بھی پڑھا ہو۔

مجھے اس بات میں شبہ نہیں کہ خدا کی مہربانی سے پاکستان میں ابھی ایسے بہت سے اساتذہ ہر سطح پر موجود ہیں جو صحیح رہنمائی کر سکتے ہیں۔ آپ کو بھی میسر آئے ہوں گے۔ لیکن اُن کی وہی باتیں آپ کے کسی کام آ سکی ہیں جن کا تعلق نصاب سے نہیں تھا۔

گزشتہ پچیس برسوں سے جو نصاب ہمارے تعلیمی اداروں میں رائج ہیں وہ نصاب نہیں، زہر ہیں۔ اگر آپ نے کسی اعلیٰ ادارے میں تعلیم حاصل کی تو اعلیٰ درجے کا زہر پیا ہے۔ ادنیٰ ادارے میں تعلیم پائی تو ادنیٰ زہر پیا ہے۔ اگر ملک سے باہر کے کسی ادارے سے ڈگری پانے کی توفیق ملی تو سمجھیے کہ درآمدشدہ زہر پیا۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم ایک زہر نہیں ہے تو سب سے پہلے یہی غلط فہمی اپنے ذہن سے نکال دیجیے تاکہ آپ دوبارہ زندہ ہو جائیں۔

ممکن ہے آپ کو یہ بات کچھ عجیب لگے۔ بالخصوص جو لوگ میرے انگریزی بلاگ پڑھنے کے عادی ہیں انہیں شاید کافی فرق محسوس ہو۔ مجبوری ہے۔ زبان کے ساتھ لہجہ بھی بدل جاتا ہے۔

 بہرحال آج مجھے اسی بات سے آغاز کرنا ہے کہ تعلیم ایک زہر ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ تعلیم حاصل نہ کریں۔ آخر سگریٹ بھی زہر ہے مگر لوگ پیتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک شخص سے ملاقات ہوئی تھی۔ اُس کی ملازمت یہی تھی کہ اونچی اونچی محفلوں میں جا کر لوگوں کو ایک مخصوص برانڈ کے سگریٹ پینے کی ترغیب دے۔ اُس برانڈ والے اُسے بڑی معقول رقم دیتے تھے۔ چنانچہ اُس شخص کے لیے تو سگریٹ کا زہر پینا اپنے پیشے کے لحاظ سے ایک مجبوری تھی جس کی بدولت اُسے کلفٹن میں گھر اور نئی گاڑی ملی ہوئی تھی۔ اسی طرح تعلیم بھی ضرور حاصل کرنی چاہیے جس طرح اُس شخص کو سگریٹ ضرور پینی چاہیے جس کی آمدنی کا انحصار ہی سگریٹ پینے اور پلانے پر ہے۔

لیکن وہ شخص بڑی غلطی کرے گا اگر سمجھنے لگے کہ سگریٹ پینے سے پھیپھڑے مضبوط ہوتے ہیں، دل کی بیماریاں دُور ہوتی ہیں اور کینسر کا علاج ہو جاتا ہے۔ بالکل ایسی ہی غلطی اُس بیچارے کی ہو گی جو سمجھے کہ تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے اُس کے علم میں اضافہ ہوا ہے یا سمجھ بڑھ گئی ہے۔

 کل پرسوں مزید فرصت ملتے ہی اگلی قسط پیش کروں گا تاکہ بات واضح ہو جائے۔  فی الحال آپ ڈنٹونک کا اشتہار دیکھیے۔ کسی نے اپنے دل کی "ایک" مراد پوری  کرنے کے لیے یُوٹیوب پر چڑھایا ہے۔ آمین۔ 

Friday, 30 July 2010

Workshop on the Power of Consensus

SOIS (Society of Iqbal Studies) presents
The Power of Consensus
How are our personal opinions related to opinions of the society, and do we lose or win by respecting this connection? What are the types of consensus and how do we recognize them? Why do we need to recognize them? Are there existing sources of moral power which we have failed to utilize? How can we empower ourselves with the least effort?
These are some of the core issues of Iqbal Studies that will be addressed in a two-hour session conducted by Khurram Ali Shafique, Research Consultant, Iqbal Academy Pakistan.
Saturday, July 31, 2010
4 pm to 6 pm
I2L Academy, 201-O, Block 2 (Opposite Ghausia Mosque), P.E.C.H.Society, Karachi.
Contact: Dr. Irfan Haider, hyder@pafkiet.edu.pk
For Directions: Mr. Waqar, 0346 321 6009
  1. Driving on Tariq Road, if you are going from the liberty signal towards Allah Walla Chowk, take third left, and then take fourth right. Masjid Ghausia would be on your left (if you don’t see the Masjid, you are lost; ask for it). I2L Academy (201/O) is right in front of the shops in the Mosque adjacent to International School.
  2. From Allah Walla Chowk if you are on Shahrahe Quaideen, going towards nursery, take left on the road just after McDonalds. Then, take fifth right. On your left would be Imperial Court (Chinese Restaurant). Go down and then take 3rd right. Masjid Ghausia and its shops would be on your left. (if you don’t see the Masjid, you are lost; ask for it). I2L Academy (201/O) is right in front of the shops in the Mosque adjacent to International school.

Monday, 7 June 2010

The DNA of Social Studies

I would like to share a few things from the workshop which I am conducting these days at Educational Resource Development Centre (ERDC), Karachi. It is called Breaking the Code: the DNA of Social Studies.

The concept is that just as DNA is a basic code encompassing the entire range of development the organism may potentially achieve, so there are a few basic truths about an area of study which yield an overall plan into which new developments may easily fit as the learner goes along.

The workshop consists of seven sessions:
  1. Ancient Civilizations
  2. Modern History
  3. Iqbal
  4. An Overview of Geography
  5. Civics: a Mind Map for Pakistani Learners
  6. Pakistan: understanding the idea and the reality
  7. Recap and Conclusions
A shorter version conducted for teachers last month became quite popular, so this is a longer version for students as well as teachers. Personally, for me, its a nice experience to be addressing "house full" sessions once again (the current round has 35 participants, which is the maximum capacity of the venue).