اُردو میں بلاگ لکھنے کا مجھے تجربہ نہیں ہےلیکن محسوس ہوتا ہے کہ بعض باتیں اُردو میں زیادہ دلچسپ معلوم ہوں گی۔ اس لیے "تاحکمِ ثانی" اس بلاگ کو اُردو کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پرائیویٹ چینلوں کی وجہ سے نئی نسل اُس اُردو سے بالکل دُور ہو رہی ہے جو ہماری نسل کو سرکاری ٹی وی اور ریڈیو وغیرہ کی بدولت مفت میسر تھی۔ یہ الفاظ "تاحکم ثانی" اور "٘مختص" اسی ورثے کا حصہ ہیں جو بچپن میں پی ٹی وی کے خبرنامے میں اتنی دفعہ سنے کہ یہ پوسٹ لکھتے ہوئے بلاوجہ استعمال کرنے کو دل چاہا۔ چنانچہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ شاید اُردو میں بلاگ لکھ کر نوجوان پڑھنے والوں کو اُردو سے قریب لانے کی اُس کوشش میں حصہ لے سکوں جو بہت سے دل جلے اور دردمند آج کل کر رہے ہیں [ان میں سے
بعض اگر کرنا چھوڑ دیں تو اُردو دوبارہ مقبول ہو جائے گی]۔
بات کُھل گئی ہے تو کیوں نہ کُھل کر کی جائے۔ وہ تمام لوگ جو یہ بلاگ پڑھ رہے ہیں اُن میں سے جن کی عمر تیس برس سے کم ہے میں اُن سب سے یہ کہہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو کچھ بھی پڑھایا جاتا ہے اور پڑھایا گیا ہے وہ آپ کو ملک اور قوم کے کسی کام آنے میں مدد نہیں دے سکتا۔ خواہ آپ کا مضمون کوئی بھی رہا ہو، اساتذہ کوئی بھی رہے ہوں اور خواہ آپ نے کہیں سے بھی پڑھا ہو۔
مجھے اس بات میں شبہ نہیں کہ خدا کی مہربانی سے پاکستان میں ابھی ایسے بہت سے اساتذہ ہر سطح پر موجود ہیں جو صحیح رہنمائی کر سکتے ہیں۔ آپ کو بھی میسر آئے ہوں گے۔ لیکن اُن کی وہی باتیں آپ کے کسی کام آ سکی ہیں جن کا تعلق نصاب سے نہیں تھا۔
گزشتہ پچیس برسوں سے جو نصاب ہمارے تعلیمی اداروں میں رائج ہیں وہ نصاب نہیں، زہر ہیں۔ اگر آپ نے کسی اعلیٰ ادارے میں تعلیم حاصل کی تو اعلیٰ درجے کا زہر پیا ہے۔ ادنیٰ ادارے میں تعلیم پائی تو ادنیٰ زہر پیا ہے۔ اگر ملک سے باہر کے کسی ادارے سے ڈگری پانے کی توفیق ملی تو سمجھیے کہ درآمدشدہ زہر پیا۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم ایک زہر نہیں ہے تو سب سے پہلے یہی غلط فہمی اپنے ذہن سے نکال دیجیے تاکہ آپ دوبارہ زندہ ہو جائیں۔
ممکن ہے آپ کو یہ بات کچھ عجیب لگے۔ بالخصوص جو لوگ میرے انگریزی بلاگ پڑھنے کے عادی ہیں انہیں شاید کافی فرق محسوس ہو۔ مجبوری ہے۔ زبان کے ساتھ لہجہ بھی بدل جاتا ہے۔
بہرحال آج مجھے اسی بات سے آغاز کرنا ہے کہ تعلیم ایک زہر ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ تعلیم حاصل نہ کریں۔ آخر سگریٹ بھی زہر ہے مگر لوگ پیتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک شخص سے ملاقات ہوئی تھی۔ اُس کی ملازمت یہی تھی کہ اونچی اونچی محفلوں میں جا کر لوگوں کو ایک مخصوص برانڈ کے سگریٹ پینے کی ترغیب دے۔ اُس برانڈ والے اُسے بڑی معقول رقم دیتے تھے۔ چنانچہ اُس شخص کے لیے تو سگریٹ کا زہر پینا اپنے پیشے کے لحاظ سے ایک مجبوری تھی جس کی بدولت اُسے کلفٹن میں گھر اور نئی گاڑی ملی ہوئی تھی۔ اسی طرح تعلیم بھی ضرور حاصل کرنی چاہیے جس طرح اُس شخص کو سگریٹ ضرور پینی چاہیے جس کی آمدنی کا انحصار ہی سگریٹ پینے اور پلانے پر ہے۔
لیکن وہ شخص بڑی غلطی کرے گا اگر سمجھنے لگے کہ سگریٹ پینے سے پھیپھڑے مضبوط ہوتے ہیں، دل کی بیماریاں دُور ہوتی ہیں اور کینسر کا علاج ہو جاتا ہے۔ بالکل ایسی ہی غلطی اُس بیچارے کی ہو گی جو سمجھے کہ تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے اُس کے علم میں اضافہ ہوا ہے یا سمجھ بڑھ گئی ہے۔
کل پرسوں مزید فرصت ملتے ہی اگلی قسط پیش کروں گا تاکہ بات واضح ہو جائے۔ فی الحال آپ ڈنٹونک کا اشتہار دیکھیے۔ کسی نے اپنے دل کی "ایک" مراد پوری کرنے کے لیے یُوٹیوب پر چڑھایا ہے۔ آمین۔