ترتیب، تدوین اور حواشی: خرم علی شفیق
ناشر: فضلی سنز
دل سے دماغ و حلقہ ء عرفاں سے دار تک
ہم خود کو ڈھونڈتے ہوئے پہنچے کہاں کہاں
اَسرار ناروی
بہت ہی بھیانک قسم کے ذہنی ادوار سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہوں۔ ورنہ میں نے بھی آفاقیت کے گیت گائے ہیں۔ عالمی بھائی چارے کی باتیں کی ہیں۔ لیکن 1947ءمیں جو کچھ ہوا اُس نے میری پوری شخصیت کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا
ابن صفیپہلی بات
مرتب کی طرف سے کچھ گزارشات
آئیے کچھ دیر کے لیے فرض کر لیں کہ
پاکستان کی ہر گلی میں لائبریری قائم ہے۔ لوگوں میں مطالعے کا شوق اِتنا بڑھ گیا ہے کہ کرایہ دے کر بھی لائبریری سے کتابیں لینے پر تیار ہیں۔ بچے، بڑے، بوڑھے اور گھر کی عورتیں بھی اِس شوق میں مبتلا ہیں۔ چنانچہ ہر محلے میں بُک اسٹال کُھل گئے ہیں بلکہ جنرل اسٹور، بیکری اور کولڈ ڈرنک کی دکانوں پر بھی کچھ نہ کچھ کتابیں ضرور رکھی جاتی ہیں کیونکہ سب سے زیادہ بِکنے والی چیز ہی کتاب ہے۔
یہ شوق صرف اُن لوگوں تک محدود نہیں ہے جو پڑھ سکتے ہیں۔ جو پڑھنا نہیں جانتے وہ بھی کتابیں خریدتے ہیں۔ کسی پڑھے لکھے کے پاس لیجاتے ہیں اور فرمایش کرتے ہیں کہ وہ پڑھ کر سنا دے۔ چنانچہ آپ کسی رکشے میں بیٹھیں تو رکشہ والے کی گدی کے پیچھے اوزاروں کے علاوہ کوئی کتاب ضرور ہو گی۔ بس میں جائیے تو ڈرائیور نے ڈیش بورڈ میں ایک آدھ کتاب رکھ چھوڑی ہو گی۔ ورکشاپوں میں گریس لگی ہوئی کتابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جہاں جسے موقع ملتا ہے وہ شروع ہو جاتا ہے۔
پڑھنے والے اِتنے ہیں تو لکھنے والے کیوں کم ہوں۔ شاید ہر گلی میں دو تین ایسے لوگ مل جائیں گے جو کتاب لکھے بیٹھے ہیں۔ پبلشر کی تلاش میں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی پبلشرز نمودار ہو گئے ہیں، بڑے شہروں کا تو پوچھنا ہی کیا۔ کتاب ایک منفعت بخش کاروبار بن گئی ہے لیکن اِس پر چند بڑے ناموں کی اِجارہ داری نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص کتاب لکھ کر، چھاپ کر، بیچ کر یا کرایہ پر دے کر اَپنے اور گھر والوں کے لیے روزگار فراہم کر سکتا ہے۔
کیا آپ ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کے خیال میں ایسا پاکستان ممکن ہے؟
ہو سکتا ہے کہ آپ پہلے سوال کا جواب اثبات میں اور دوسرے کا نفی میں دیں۔ (اکثر لوگوں نے مجھ سے یہی کہا ہے کہ وہ ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں مگر اُن کے خیال میں یہ ممکن نہیں ہے)۔
لیکن میں نے جو نقشہ کھینچا گیا وہ ہمارا مستقبل نہیں بلکہ ماضی ہے۔ پاکستان بننے کے دس گیارہ برس بعد ہی یہ ماحول قائم ہو گیا تھا اور تقریباً ۶۸۹۱ءتک رہا۔
جو لوگ اُس وقت موجود تھے اُنہیں یاد ہو گا (اور یہ اُن کی مہربانی ہے کہ اِس کی یادیں بھی نئی نسل تک منتقل نہیں کی ہیں)۔ بدنصیبی ہے کہ جس قوم کا آغاز اِس شان کے ساتھ ہوا آج اُس کی یہ حالت ہے کہ کتابیں چھپنے، پڑھنے، بیچنے اور خریدنے کا کام تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ کتابوں کی دکانیں صرف چند بازاروں تک محدود ہیں۔ پڑھنے والے اب بھی کتابوں پر بڑی رقومات صرف کرتے ہیں لیکن یہ شوق صرف چند لوگوں تک رہ گیا ہے۔ والدین، اساتذہ اور دردمند لوگ عموماً یہی رونا روتے دکھائی دیتے ہیں کہ معاشرے میں کتب بینی کی عادت ختم ہو گئی ہے۔
چنانچہ اَصل سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اِس ماحول کو ختم کرنے کے ذمہ دار دانشور، اساتذہ اور والدین ہیں۔ اُن کے سوا کسی پر بھی اِس کی ذمہ داری عاید نہیں کی جا سکتی- نہ غریب عوام، نہ کسی فوجی ڈکٹیٹر نہ کسی اور قسم کی حکومت پر۔ جس زمانے کا یہ تذکرہ ہے اُس زمانے میں والدین اپنے بچوں کو کتابیں پڑھنے پر ڈانٹتے ہی نہیں تھے بلکہ اِس بات پر پٹائی بھی کر دیتے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ بچوں کو اُردو میں صرف درسی کتابیں پڑھنی چاہئیں ورنہ انگریزی ناول پڑھیں تاکہ انگریزی اچھی ہو جائے۔ چنانچہ والدین کے خیال میں کتابیں پڑھنے کا شوق چرس، افیون اور گانجے کی طرح تھا۔ بچے اپنے والدین سے چھُپا کر کتابیں پڑھتے تھے۔ پکڑے جاتے تو مشکل درپیش آتی۔
اسکولوں میں اساتذہ کا بھی یہی خیال تھا۔ کسی بھی وقت بستوں کی تلاشی لے لی جاتی تھی۔ جس طالب علم کے بستے سے درسی کتاب کے علاوہ کوئی کتاب نکلتی اُسے سزا ملتی۔ کتاب عموماً ضبط کر کے اسکول کی لائبریری میں داخل کر دی جاتی تھی مگر کبھی کبھی اساتذہ بچوں کو عبرت دلانے کے لیے کتاب پھاڑ کر پُرزے پُرزے بھی کر دیتے تھے (یہ منظر میں نے اپنے اسکول کے زمانے میں خود کئی بار دیکھا)۔ چنانچہ بچے کئی دفعہ کتابیں قمیص کے نیچے یا جرابوں میں اُڑس کر چھُپا لیتے۔ اسکول میں بدمعاش طالب علم کا تصور یہی تھا کہ اُس کے پاس سے
کتابیں برآمد ہوں گی
یہ حقیقت جُھٹلائی نہیں جا سکتی کہ ہمارے اسکولوں نے مسلسل تیس برس تک یہی
روش اپنائے رکھی۔ کالجوں، یونیورسٹیوں، اکیڈمیوں اور ادبی انجمنوں کی رائے میں بھی پوری قوم جو کتابیں پڑھ رہی تھی وہ غلط کر رہی تھی۔ ہمارے پروفیسروں، دانشوروں اور نقادوں کے نزدیک ادب اور ثقافت کے پیمانے کچھ اور تھے (جن کا تذکرہ کرنے کی شاید یہاں کوئی ضرورت نہیں)۔ انہی کی سوچ سے وہ جذباتی رویے فروغ پا رہے تھے جن کے تحت اسکولوں اور گھروں میں کتابیں پڑھنا جرم قرار دیا گیا تھا۔
چنانچہ یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ وہ ماحول کیوں ختم ہو گیا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اُسے واپس لانا بیحد ضروری ہے ورنہ ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ اِس کے لیے سب سے پہلے ہمیں ایمانداری کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کون صحیح تھا: قوم یا دانشور؟
قوم کے منتخب کیے ہوئے ادب کے سب سے بڑے نمایندہ اَسرار احمد ناوری تھے جنہیں عموماً قلمی نام ابن صفی سے پہچانا جاتا ہے۔ انہی نے چند دوستوں کے ساتھ اِس تہذیبی انقلاب کا آغاز کیا تھا۔ تعلیمی اِداروں اور دانشوروں کی طرف سے کتابوں کے خلاف جو طوفان اُٹھایا گیا، یہ اُس کے خلاف چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ جب تک وہ زندہ رہے، پاکستان میں کتابیں پڑھنے کا رجحان کم نہ ہوا۔ اِسی دوران ریڈیو نے مقبولیت حاصل کی، فلموں کا سنہرا دَور شروع ہوا، ٹیلی وژن آیا اور بلیک اینڈ وہائٹ سے رنگین ہو گیا۔ لوگوں نے اِن تمام دلچسپیوں میں حصہ لیا مگر کتابوں سے منہ نہ موڑا۔ 1980ءمیں ابن صفی فوت ہوئے۔ چند ہی برس بعد وہ لائبریریاں اور بُک اسٹال اچانک غائب ہوگئے جو گلی گلی کُھلے ہوئے تھے۔
سائیکومینشن مِیں مَیں نے ابن صفی کے جاسوسی ناولوں میں سے ایسی تحریروں کا انتخاب پیش کیا تھا جن میں جاسوسی بالکل نہیں تھی بلکہ معاشرے کے بارے میں عمیق مشاہدات یا پھر طنز و مزاح تھا۔ ان کی روشنی میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ عوام کا فیصلہ درست تھا اور ہمارے دانشور غلط تھے۔ یقیناً یہ ادب اُس پذیرائی کے لائق تھا جو عوام نے کی۔
اب دانشوروں کے اعتراض کا دُوسرا پہلو رہ جاتا ہے۔ ابن صفی کے ناولوں میں جاسوسی کا عنصر غالب ہوتا تھا اور بظاہر ہمارے دانشوروں کو اِسی پر اعتراض تھا۔ رانا پیلس میں ایسے ہی حصوں کا انتخاب پیش کیا جا رہا ہے تاکہ آپ خود فیصلہ کر سکیں کہ جاسوسی عنصر کی نوعیت کیا تھی۔
کتاب کے تین حصے ہیں
حیرت نامہ میں تیرہ ناولوں کے ایسے اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں جو قارئین کو تحیّر کی کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
کردارنامہ میں چودہ ایسے اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں جن میں ابن صفی کے ناولوں کے مستقل کردار متعارف ہوتے ہیں (ظاہر ہے کہ ان میں سے اکثر کردار سائیکومینشن اور رانا پیلس کے دوسرے حصوں میں بھی آئے ہیں مگر یہاں اِن کرداروں کا مفصل تعارف ہو رہا ہے)۔
سیاحت نامہ میں تیرہ ایسے اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں جن میں ابن صفی کے کردار کسی بیرونی ملک میں موجود ہیں۔
رانا پیلس میں تحقیقِ متن کے لیے جناب راشد اَشرف کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو ابنِ صفی کے محقق ہیں۔ جہاں جہاں ضرورت محسوس ہوئی انہوں نے اولین ایڈیشنوں کے ساتھ متن کا موازنہ کر کے تصحیح کی۔ ابنِ صفی ویب سائٹ کے مہتمم جناب حنیف احمد نے گراں قدر مشورے دیے اور بروقت بعض معلومات فراہم کیں۔
ابن صفی کے قانونی ورثا کا بھی شکرگذار ہوں جنہوں نے اِس انتخاب کو شائع کرنے کی اجازت دی۔ ابن صفی کے صاحبزادے ڈاکٹر احمد صفی اِس پوری مہم میں میرے ساتھ برابر کے شریک رہے ہیں۔
ایک اہم اطلاع ہے کہ ابن صفی کے بارے میں انٹرنیٹ پر مزید جستجو کرنی ہو تو
www.ibnesafi.info ابن صفی کی خاص ویب سائٹ ہے جس کے خالق اور مہتمم جناب محمد حنیف ہیں۔
http://www.wadi-e-urdu.com محقق راشد اشرف کی وَیب سائٹ ہے۔
www.facebook.com/ibnesafi فیس بُک پر ابنِ صفی کا صفحہ ہے۔
اِن تینوں کاوشوں کو ابنِ صفی کے قانونی ورثا کی سرپرستی حاصل ہے۔
خرم علی شفیقkhurramsdesk@gmail.com