Pages

Tuesday 22 November 2011

ستارہ یا سُورج؟

مصنف، فلمساز اور اداکار وحید مراد
1938-1983
ایسی شخصیات کی مقبولیت کا تجزیہ کر کے معاشرہ اپنے بارے میں جان سکتا ہے۔ 

عام طور پر غیرمعمولی مقبولیت کی وجوہات یہ ہوتی ہیں: سیاسی پس منظر، معاشرے کا ماحول، تاریخی روایات، ادبی اور نفسیاتی استعارے، اقدار اور نصب العین وغیرہ۔

وحید مراد کی غیرمعمولی مقبولیت کا زمانہ مارچ 1966 سے شروع ہوتا ہےجب فلم ارمان ریلیز ہوئی جس کی کہانی اُنہوں نے خود لکھی تھی اور فلمساز بھی وہی تھے۔

چند ماہ پہلے 1965کی جنگ میں کامیابی کے ساتھ اپنے ملک کا دفاع کرنے کے بعد قوم کے حوصلے بلند تھے۔ جنگ کے دوران شروع ہونے والا قومی نغموں اور ترانوں کا دَور ابھی ختم نہیں ہوا تھا بلکہ حُبُ الوطنی پر مبنی ادب کی بہار آئی ہوئی تھی۔ 

دوسری طرف تاشقند کے معاہدے میں فوجی حکومت نے جو شرائط قبول کی تھیں اُنہیں عام طور پر بزدلی سے تعبیر کیا جا رہا تھا۔ یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام کی اُمنگوں کا زیادہ احترام کرتی ہو۔ 

فلم ارمان میں غیرمحسوس طور پر وہی جذبات موجزن تھے جو قومی نغموں میں استعمال ہوئے تھے، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ وہاں محبت کا موضوع وطن تھا اور یہاں محبوب۔ لیکن جو عوام صدیوں سے عشقِ مجازی کی شاعری میں عشقِ حقیقی تلاش کرتے آئے ہوں اُن کے  لیے یہ فرق آخر کتنا اہم ہو سکتا تھا؟ 

یہ اپنی جگہ خود بہت بڑی بات ہے کہ عشقِ مجازی کے لٹریچر میں ایسے جذبات پیش کر دیے جائیں جنہیں آپ وطن سے مخاطب ہو کر کہیں تو آپ کی نظریاتی بنیادوں کی مکمل تشریح بن جائیں۔


دل چاہے تو تجربہ کر لیجیے۔ پاکستان کو مخاطب کر کے مندرجہ ذیل مصرعے پڑھیے اور فیصلہ کیجیے کہ کیا یہ اُس "ارمان"کی مکمل عکاسی نہیں جو پاکستان بنانے والوں کے دلوں میں پاکستان کے لیے تھے؟ 

دیا حوصلہ جس نے جینے کا ہم کو
وہ اِک خوبصورت سا احساس ہو تم
جو مٹتا نہیں دل سے تم وہ یقیں ہو
ہمیشہ جو رہتی ہے وہ آس ہو تم
یہ سوچا ہے ہم نے کہ اب زندگی بھر
تمہاری محبت کو سجدہ کریں گے


فسانہ جو اُلفت کا چھیڑا ہے تم نے
ادھورا نہ رہ جائے یہ سوچ لینا
بچھڑ کے زمانے سے پایا ہے تم کو
کہیں ساتھ تم بھی نہ اب چھوڑ دینا۔۔۔

اسکرین پر وحید مراد کی جو شخصیت اُبھرتی تھی وہ اِس موضوع کے ساتھ انصاف کرتی تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ انگریزی ادب میں ایم اے کیا تھا۔ مطالعہ بیحد وسیع تھا۔ نہ صرف ارمان بلکہ بعد کی فلموں میں بھی عام طور پر اُن کا کردار ایسے شخص کا ہوتا تھا جو اپنے ماحول سے غیرمطمئن ہو کر کسی بہتر آئیڈیل کی جستحو کرتا ہے مگر معاشرے کی اخلاقی اقدار کا محافظ بھی ہے۔

اِس کے علاوہ ایک خاص بات تھی۔ یہ طے ہے کہ ہیرو کو ہیرو نظر آنے کے لیے خوداعتمادی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ اِس کے لیے عام طور پر اداکار ایک ایسے انداز کا سہارا لیتے ہیں جس میں دوسروں کو اہمیت نہ دینے کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ وہ فریم میں داخل ہی یوں ہوتے ہیں جیسے شیر شاہ سوری ہمایوں سے سلطنت چھیننے آیا ہو۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ یہ شخص نہ کسی کی بات سنے گا نہ سمجھے گا۔ یوں آپ اُس کی برتری تسلیم کر لیتے ہیں۔ وہ ہیرو بن جاتا ہے۔ وحید مراد کا معاملہ برعکس تھا۔

 وحید مراد کے حرکات و سکنات اور لب و لہجے سے ایک عجیب قسم کا اشتیاق ظاہر ہوتا تھا جیسے ہر شخص کی بات سننے اور سمجھنے کے لیے بیتاب ہیں۔ اِس خواہش میں آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہیں کہ جس کے دل میں جو کچھ بھی ہے اُسے محسوس کر لیں۔




یہ انداز صرف وحید مراد ہی کے ساتھ آیا۔ دنیا کے بڑے بڑے سُپراسٹارز سے موازنہ کر لیجیے [اگر آپ فلمیں نہیں دیکھتے تو ٹیلی وژن پر نظر آنے والے کمپئرز یا دانشوروں سے موازنہ کر سکتے ہیں]۔ دلیپ کمار، بریڈ پِٹ، امیتابھ بچن، شاہرُخ خان یا کوئی بھی جسے آپ خواہ وحید مراد سے بڑا اسٹار کہیں یا چھوٹا، وہ اِس بات میں مقابلہ نہیں کر سکتا کہ وحید مراد وہ ہیرو ہے جس کی حرکات و سکنات  یعنی پوری باڈی لینگوئج مخاطب کو اہمیت دلوانے میں صرف ہو جاتی ہے۔ وہ اپنا ہیرو ہونا دوسروں کی اہمیت گھٹانے سے نہیں بلکہ بڑھانے سے ثابت کرتا ہے۔ 

 شائد یہ اِس لیے بھی تھا کہ وحید مراد بعد میں اداکار تھے، پہلے ایک مصنف اور فلمساز تھے جن کے پاس کچھ پختہ افکار تھے، پیغام تھے جنہیں وہ دوسروں تک پہنچانا چاہتے تھے۔ 




بُدھ کے روز وحید مراد کی برسی ہے۔ اِسی سلسلے میں یہ پوسٹ لکھی لیکن اب سوچ رہا ہوں کہ اِس میں زیادہ تعریف وحید مراد کی ہوئی ہے یا اُس قوم کی جس نے اپنے لیے سپر اسٹار بھی منتخب کیا تو خاصا سُلجھا ہوا۔ پسند اپنی اپنی، نصیب اپنا اپنا۔  

6 comments:

Thinking said...

hmm....a very nice post indeed...Shafique Sahib...

By the way you talked about the announcers and compares...as an example to see how Waheed Murad was eager to know what's in mind of his co-actors...but...I would suggest NOT to see any of Pakistani Channel's compare and announcers...because none of them have the ability to LISTEN at least one minute straight..and they don't even bother to understand their guests too...

hmm...I think...the people accept those who are genuine...the fake people or the personality is not acceptable everywhere...

Waheed Murad was a genuine artist...

MianTariq said...

Very impressive article about the legendary hero of the sub continent - who is physically gone but his memories are alive.

MianTariq said...

Very informative article about an ICON who ruled the film world for three decades.

Please visit my blog

Akhtar Wasim Dar said...

وحیدمراد جسے رومان کا شہزادہ کہا جاتا تھا حقیقت میں وہ محبت کا شہزادہ تھا جس نے محبت کو ایک عوامی جذبہ اور عوامی رنگ دیا۔

connie nash said...

I've commented on some others per Waheed Murad yet I do want to say I appreciate your first introduction of this genuine genius to me. How special, as Thinking has pointed out that he really wanted to know what mattered to his co-actors.

aeya said...

Waheed Myrad no doubt dealt with very important social issues with great intelligence, there was humor and entertainment to attract an audience and once they are there very important information is passed on to them...but what I find most interesting is how you ended the article about what it tells about a nation who produced such a great hero and person.