Pages

Sunday, 27 November 2011

اُردو ادب کے عناصرِ خمسہ

کالجوں میں ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ اُردو ادب کے پانچ عناصرِ خمسہ ہیں: سر سید احمد خاں، مولانا حالی، مولانا شبلی نعمانی، مولانا محمد حسین آزاد اور ڈپٹی نذیر احمد۔ کیا یہ بات درست ہے؟

اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِن پانچوں بزرگوں نے جدید اُردو ادب کی تعمیر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا مگر اِنہیں جس طرح عناصرِ خمسہ کی ترکیب میں جوڑا جاتا ہے وہ بیسویں صدی کے شروع میں اُس وقت کیا گیا جب اُس وقت کے ادیبوں کی نئی نسل مولانا حالی کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹنے لگی تھی۔

مولانا حالی کا بتایا ہوا راستہ یہ تھا کہ ادب کی قدر و قیمت قومی مقاصد کی روشنی میں متعین کی جاتی ہے۔ 

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سر سید، مولانا حالی اور مولانا شبلی نعمانی دوقومی نظریے کے امین تھے۔ انہوں نے ادب کی بنیاد قومی مقاصد پر رکھی۔ اس کے علاوہ ان تینوں بزرگوں کی نمایاں خصوصیت عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھی جس کے بارے میں مزید کچھ عرض کروں گا۔

مولانا محمد حسین آزاد اور ڈپٹی نذیر احمد کا معاملہ کچھ اور تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی خدمات سنہرے لفظوں میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ ہمارے طلبہ کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان دونوں نے انگریزی ادب سے انشاپردازی اور ناول کی اصناف کو اُردو میں منتقل کرتے ہوئے بعض ایسی اختراعات کیں جو انگریزی میں موجود نہیں تھیں۔ ان کی وجہ سے اُردو ادب کا دامن زیادہ وسیع ہو گیا جس کا اندازہ ہمیں ابھی تک نہیں ہے۔ 

لیکن یہ دونوں بزرگ قومی محبت کے اُس تصور کے مبلغ نہیں تھے جو بقیہ تین بزرگوں نے پیش کیا تھا۔ شبلی کا ہیرو اورنگزیب تھا، آزاد کا ہیرو اکبرِ اعظم تھا۔ 

مولانا حالی نے شیخ سعدی شیرازی کی سوانح لکھی اور اُنہیں اپنا پیر و مرشد قرار دیا، اِسی طرح شبلی نعمانی نے سوانح مولانا روم لکھی۔ مگر ڈپٹی نذیر احمد نے شیخ سعدی کی گلستان پر اعتراض کیا کہ اس کے بعض حصے فحش ہیں اس لیے یہ کتاب طلبہ کو پڑھائے جانے کے لائق نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ پھر مولانا روم کی مثنوی کے بارے میں بھی ان کی یہی رائے رہی ہو گی۔

چنانچہ یہ ظاہر ہے کہ ان بزرگوں کے درمیان اس بات پر کچھ اختلاف ضرور تھا کہ ادب کے معاملے میں قوم کو کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ آخر میں قوم نے پانچوں بزرگوں کو عزت احترام کا مقام دیا مگر رہنمائی صرف سر سید، حالی اور شبلی کی قبول کی جبکہ آزاد اور نذیر احمد کے مشورے کو قوم نے قبول نہ کیا۔ 

جہاں تک عشق رسول کا معاملہ ہے ہمارے ادب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ کہ 1867میں سر سید احمد خاں نے جب خطبات احمدیہ لکھنے کا ارادہ کیا وہاں سے لے کر 1947تک پورے اسی برس ہمارے ادب پر ایسا دَور رہا جب عشق رسول کے سوا ہمارے پاس کوئی اور موضوع تھا ہی نہیں۔ سر سید کی سب سے اہم تصنیف کون سی ہے؟ خطباتِ احمدیہ۔ مولانا حالی کی سب سے مشہور نظم کون سی ہے؟ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا۔ مولانا شبلی کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ سیرۃ النبی۔ علامہ اقبال کی شاعری میں کون سا جذبہ سب سے زیادہ نمایاں ہے؟ عشق رسول۔

اُس زمانے کے بعض بزرگوں کی روایات ہم تک پہنچی ہیں۔ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں بازار حُسن میں بھی مولانا حالی کی یہ نعت گائی جاتی تھی: وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا۔ یہ طاقت تھی اُس ادب کی اور یوں اُس نے معاشرے پر سحر قائم کیا تھا کہ مسجد سے لے کر گناہوں کے محلے تک کسی کو نہیں چھوڑا تھا۔

صوفیوں میں ایک مقولہ ہے کہ اگر کوئی مرید چالیس دن تک اپنے پِیر و مرشد کا
 تصور کرے تو اُسے مستقبل کی باتیں بھی معلوم ہو جاتی ہیں، غیب کے بعض اسرار خدا کی مرضی سے اُس پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ بات درست ہے یا نہیں لیکن میں اکثر یہ ضرور سوچتا ہوں کہ جس قوم نے اَسی برس تک سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ڈوبنے ہی کو اپنا علم، ادب، تفریح اور سب کچھ قرار دیا ہو اُس کا مستقبل شاید خدا نے کچھ محفوظ کر دیا ہو۔  

خیر وہ ایک الگ بات ہے۔ اب آپ ویڈیو دیکھیے: وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے 
والا۔

3 comments:

Hafiz Safwan Muhammad Chohan said...

آپ نے آنکھیں بھگو دیں اس نقطہ نظر سے ان بڑے لوگوں کو دیکھ کر۔ واہ وا۔ سبحان اللہ
حافظ صفوان محمد

Hafiz Safwan Muhammad Chohan said...

آپ نے آنکھیں بھگو دیں اس نقطہ نظر سے ان بڑے لوگوں کو دیکھ کر۔ واہ وا۔ سبحان اللہ

Hafiz Safwan Muhammad Chohan said...

آپ نے آنکھیں بھگو دیں اس نقطہ نظر سے ان بڑے لوگوں کو دیکھ کر۔ واہ وا۔ سبحان اللہ
حافظ صفوان محمد