Pages

Thursday 29 December 2011

رانا پیلس

رانا پیلس
ابن صفی
ترتیب، تدوین اور حواشی: خرم علی شفیق
ناشر: فضلی سنز

دل سے دماغ و حلقہ ء عرفاں سے دار تک
ہم خود کو ڈھونڈتے ہوئے پہنچے کہاں کہاں
اَسرار ناروی

بہت ہی بھیانک قسم کے ذہنی ادوار سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہوں۔ ورنہ میں نے بھی آفاقیت کے گیت گائے ہیں۔ عالمی بھائی چارے کی باتیں کی ہیں۔ لیکن 1947ءمیں جو کچھ ہوا اُس نے میری پوری شخصیت کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا
ابن صفی


پہلی بات
مرتب کی طرف سے کچھ گزارشات

آئیے کچھ دیر کے لیے فرض کر لیں کہ

پاکستان کی ہر گلی میں لائبریری قائم ہے۔ لوگوں میں مطالعے کا شوق اِتنا بڑھ گیا ہے کہ کرایہ دے کر بھی لائبریری سے کتابیں لینے پر تیار ہیں۔ بچے، بڑے، بوڑھے اور گھر کی عورتیں بھی اِس شوق میں مبتلا ہیں۔ چنانچہ ہر محلے میں بُک اسٹال کُھل گئے ہیں بلکہ جنرل اسٹور، بیکری اور کولڈ ڈرنک کی دکانوں پر بھی کچھ نہ کچھ کتابیں ضرور رکھی جاتی ہیں کیونکہ سب سے زیادہ بِکنے والی چیز ہی کتاب ہے۔
یہ شوق صرف اُن لوگوں تک محدود نہیں ہے جو پڑھ سکتے ہیں۔ جو پڑھنا نہیں جانتے وہ بھی کتابیں خریدتے ہیں۔ کسی پڑھے لکھے کے پاس لیجاتے ہیں اور فرمایش کرتے ہیں کہ وہ پڑھ کر سنا دے۔ چنانچہ آپ کسی رکشے میں بیٹھیں تو رکشہ والے کی گدی کے پیچھے اوزاروں کے علاوہ کوئی کتاب ضرور ہو گی۔ بس میں جائیے تو ڈرائیور نے ڈیش بورڈ میں ایک آدھ کتاب رکھ چھوڑی ہو گی۔ ورکشاپوں میں گریس لگی ہوئی کتابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جہاں جسے موقع ملتا ہے وہ شروع ہو جاتا ہے۔
پڑھنے والے اِتنے ہیں تو لکھنے والے کیوں کم ہوں۔ شاید ہر گلی میں دو تین ایسے لوگ مل جائیں گے جو کتاب لکھے بیٹھے ہیں۔ پبلشر کی تلاش میں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی پبلشرز نمودار ہو گئے ہیں، بڑے شہروں کا تو پوچھنا ہی کیا۔ کتاب ایک منفعت بخش کاروبار بن گئی ہے لیکن اِس پر چند بڑے ناموں کی اِجارہ داری نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص کتاب لکھ کر، چھاپ کر، بیچ کر یا کرایہ پر دے کر اَپنے اور گھر والوں کے لیے روزگار فراہم کر سکتا ہے۔
کیا آپ ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کے خیال میں ایسا پاکستان ممکن ہے؟
ہو سکتا ہے کہ آپ پہلے سوال کا جواب اثبات میں اور دوسرے کا نفی میں دیں۔ (اکثر لوگوں نے مجھ سے یہی کہا ہے کہ وہ ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں مگر اُن کے خیال میں یہ ممکن نہیں ہے)۔

لیکن میں نے جو نقشہ کھینچا گیا وہ ہمارا مستقبل نہیں بلکہ ماضی ہے۔ پاکستان بننے کے دس گیارہ برس بعد ہی یہ ماحول قائم ہو گیا تھا اور تقریباً ۶۸۹۱ءتک رہا۔
جو لوگ اُس وقت موجود تھے اُنہیں یاد ہو گا (اور یہ اُن کی مہربانی ہے کہ اِس کی یادیں بھی نئی نسل تک منتقل نہیں کی ہیں)۔ بدنصیبی ہے کہ جس قوم کا آغاز اِس شان کے ساتھ ہوا آج اُس کی یہ حالت ہے کہ کتابیں چھپنے، پڑھنے، بیچنے اور خریدنے کا کام تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ کتابوں کی دکانیں صرف چند بازاروں تک محدود ہیں۔ پڑھنے والے اب بھی کتابوں پر بڑی رقومات صرف کرتے ہیں لیکن یہ شوق صرف چند لوگوں تک رہ گیا ہے۔ والدین، اساتذہ اور دردمند لوگ عموماً یہی رونا روتے دکھائی دیتے ہیں کہ معاشرے میں کتب بینی کی عادت ختم ہو گئی ہے۔
چنانچہ اَصل سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اِس ماحول کو ختم کرنے کے ذمہ دار دانشور، اساتذہ اور والدین ہیں۔ اُن کے سوا کسی پر بھی اِس کی ذمہ داری عاید نہیں کی جا سکتی- نہ غریب عوام، نہ کسی فوجی ڈکٹیٹر نہ کسی اور قسم کی حکومت پر۔ جس زمانے کا یہ تذکرہ ہے اُس زمانے میں والدین اپنے بچوں کو کتابیں پڑھنے پر ڈانٹتے ہی نہیں تھے بلکہ اِس بات پر پٹائی بھی کر دیتے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ بچوں کو اُردو میں صرف درسی کتابیں پڑھنی چاہئیں ورنہ انگریزی ناول پڑھیں تاکہ انگریزی اچھی ہو جائے۔ چنانچہ والدین کے خیال میں کتابیں پڑھنے کا شوق چرس، افیون اور گانجے کی طرح تھا۔ بچے اپنے والدین سے چھُپا کر کتابیں پڑھتے تھے۔ پکڑے جاتے تو مشکل درپیش آتی۔

اسکولوں میں اساتذہ کا بھی یہی خیال تھا۔ کسی بھی وقت بستوں کی تلاشی لے لی جاتی تھی۔ جس طالب علم کے بستے سے درسی کتاب کے علاوہ کوئی کتاب نکلتی اُسے سزا ملتی۔ کتاب عموماً ضبط کر کے اسکول کی لائبریری میں داخل کر دی جاتی تھی مگر کبھی کبھی اساتذہ بچوں کو عبرت دلانے کے لیے کتاب پھاڑ کر پُرزے پُرزے بھی کر دیتے تھے (یہ منظر میں نے اپنے اسکول کے زمانے میں خود کئی بار دیکھا)۔ چنانچہ بچے کئی دفعہ کتابیں قمیص کے نیچے یا جرابوں میں اُڑس کر چھُپا لیتے۔ اسکول میں بدمعاش طالب علم کا تصور یہی تھا کہ اُس کے پاس سے 
کتابیں برآمد ہوں گی

 یہ حقیقت جُھٹلائی نہیں جا سکتی کہ ہمارے اسکولوں نے مسلسل تیس برس تک یہی 
روش اپنائے رکھی۔ کالجوں، یونیورسٹیوں، اکیڈمیوں اور ادبی انجمنوں کی رائے میں بھی پوری قوم جو کتابیں پڑھ رہی تھی وہ غلط کر رہی تھی۔ ہمارے پروفیسروں، دانشوروں اور نقادوں کے نزدیک ادب اور ثقافت کے پیمانے کچھ اور تھے (جن کا تذکرہ کرنے کی شاید یہاں کوئی ضرورت نہیں)۔ انہی کی سوچ سے وہ جذباتی رویے فروغ پا رہے تھے جن کے تحت اسکولوں اور گھروں میں کتابیں پڑھنا جرم قرار دیا گیا تھا۔

چنانچہ یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ وہ ماحول کیوں ختم ہو گیا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اُسے واپس لانا بیحد ضروری ہے ورنہ ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ اِس کے لیے سب سے پہلے ہمیں ایمانداری کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کون صحیح تھا: قوم یا دانشور؟

قوم کے منتخب کیے ہوئے ادب کے سب سے بڑے نمایندہ اَسرار احمد ناوری تھے جنہیں عموماً قلمی نام ابن صفی سے پہچانا جاتا ہے۔ انہی نے چند دوستوں کے ساتھ اِس تہذیبی انقلاب کا آغاز کیا تھا۔ تعلیمی اِداروں اور دانشوروں کی طرف سے کتابوں کے خلاف جو طوفان اُٹھایا گیا، یہ اُس کے خلاف چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ جب تک وہ زندہ رہے، پاکستان میں کتابیں پڑھنے کا رجحان کم نہ ہوا۔ اِسی دوران ریڈیو نے مقبولیت حاصل کی، فلموں کا سنہرا دَور شروع ہوا، ٹیلی وژن آیا اور بلیک اینڈ وہائٹ سے رنگین ہو گیا۔ لوگوں نے اِن تمام دلچسپیوں میں حصہ لیا مگر کتابوں سے منہ نہ موڑا۔ 1980ءمیں ابن صفی فوت ہوئے۔ چند ہی برس بعد وہ لائبریریاں اور بُک اسٹال اچانک غائب ہوگئے جو گلی گلی کُھلے ہوئے تھے۔

سائیکومینشن مِیں مَیں نے ابن صفی کے جاسوسی ناولوں میں سے ایسی تحریروں کا انتخاب پیش کیا تھا جن میں جاسوسی بالکل نہیں تھی بلکہ معاشرے کے بارے میں عمیق مشاہدات یا پھر طنز و مزاح تھا۔ ان کی روشنی میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ عوام کا فیصلہ درست تھا اور ہمارے دانشور غلط تھے۔ یقیناً یہ ادب اُس پذیرائی کے لائق تھا جو عوام نے کی۔

اب دانشوروں کے اعتراض کا دُوسرا پہلو رہ جاتا ہے۔ ابن صفی کے ناولوں میں جاسوسی کا عنصر غالب ہوتا تھا اور بظاہر ہمارے دانشوروں کو اِسی پر اعتراض تھا۔ رانا پیلس میں ایسے ہی حصوں کا انتخاب پیش کیا جا رہا ہے تاکہ آپ خود فیصلہ کر سکیں کہ جاسوسی عنصر کی نوعیت کیا تھی۔

کتاب کے تین حصے ہیں

حیرت نامہ میں تیرہ ناولوں کے ایسے اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں جو قارئین کو تحیّر کی کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
کردارنامہ میں چودہ ایسے اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں جن میں ابن صفی کے ناولوں کے مستقل کردار متعارف ہوتے ہیں (ظاہر ہے کہ ان میں سے اکثر کردار سائیکومینشن اور رانا پیلس کے دوسرے حصوں میں بھی آئے ہیں مگر یہاں اِن کرداروں کا مفصل تعارف ہو رہا ہے)۔
سیاحت نامہ میں تیرہ ایسے اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں جن میں ابن صفی کے کردار کسی بیرونی ملک میں موجود ہیں۔

رانا پیلس میں تحقیقِ متن کے لیے جناب راشد اَشرف کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو ابنِ صفی کے محقق ہیں۔ جہاں جہاں ضرورت محسوس ہوئی انہوں نے اولین ایڈیشنوں کے ساتھ متن کا موازنہ کر کے تصحیح کی۔ ابنِ صفی ویب سائٹ کے مہتمم جناب حنیف احمد نے گراں قدر مشورے دیے اور بروقت بعض معلومات فراہم کیں۔
ابن صفی کے قانونی ورثا کا بھی شکرگذار ہوں جنہوں نے اِس انتخاب کو شائع کرنے کی اجازت دی۔ ابن صفی کے صاحبزادے ڈاکٹر احمد صفی اِس پوری مہم میں میرے ساتھ برابر کے شریک رہے ہیں۔

ایک اہم اطلاع ہے کہ ابن صفی کے بارے میں انٹرنیٹ پر مزید جستجو کرنی ہو تو
www.ibnesafi.info ابن صفی کی خاص ویب سائٹ ہے جس کے خالق اور مہتمم جناب محمد حنیف ہیں۔

http://www.wadi-e-urdu.com محقق راشد اشرف کی وَیب سائٹ ہے۔

www.facebook.com/ibnesafi فیس بُک پر ابنِ صفی کا صفحہ ہے۔

اِن تینوں کاوشوں کو ابنِ صفی کے قانونی ورثا کی سرپرستی حاصل ہے۔
خرم علی شفیق
khurramsdesk@gmail.com

Friday 16 December 2011

مشرقی پاکستان

انیس سو ستر میں پاکستان میں انتخابات ہوئے۔ عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی۔ ہارنے والے رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے مطالبہ کیا کہ اقتدار میں انہیں شامل کیا جائے ورنہ اگر مغربی پاکستان سے کوئی نمایندہ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں گیا تو بھٹو صاحب اُس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ 

انہی دنوں پنجابی فلم "مستانہ ماہی" ریلیز ہوئی۔ فلمساز وحید مراد تھے۔ مصنف حزین قادری تھے۔ فلم مقبول ہوئی۔ 

اُس زمانے میں فلموں میں سیاسی تبصرے کرنا بہت مشکل تھا۔ سینسر پوری فلم پر پابندی لگا سکتا تھا۔ مشرقی پاکستان کا مسئلہ تو اِتنا نازک تھا کہ جیل جانے کی نوبت بھی آ سکتی تھی۔ 

ان پابندیوں کو ذہن میں رکھ کر مندرجہ ذیل ٹکڑا ملاحظہ کیجیے۔ یہ فلم کا ابتدائی حصہ ہے۔ ایک عورت اپنے گاوں آئی ہے۔ بدمعاش نے اُسے روک لیا ہے۔ شوہر سے مطالبہ کیا ہے کہ دو ہزار روپے ادا کرے، تب بیوی کو واپس آنے دیا جائے گا۔

یہ بدمعاش کون ہے؟ گُرگا کہتا ہے، "آج آپ کا موڈ کچھ فارن کنٹری [بیرونی ملک] جیسا لگتا ہے۔" ہیرو اپنے گاوں کے لوگوں سے شکایت کرتا ہے کہ شریفوں کے گھروں کے فیصلے بدمعاش کی بیٹھک میں کیوں پہنچ گئے ہیں، آپ لوگ مل کر خود ہی کیوں نہیں فیصلے کرتے۔

بدمعاش کہتا ہے، میں دیکھوں گا تم لوگ اپنے فیصلے خود کس طرح کرتے ہو۔

کہیں یہ بدمعاش کوئی فارن کنٹری ہی تو نہیں جو نہیں چاہتا تھا کہ ہم اپنے فیصلے 
خود کریں؟ ویڈیو دیکھیے اور فیصلہ کیجیے۔

Tuesday 13 December 2011

تانگے والے کا قائداعظم

آیے دیکھتے ہیں کہ قائداعظم کس طرح عوام کی بات جاننے کے لیے بیتاب رہتے تھے اور ماننے پر بھی آمادہ تھے [ایک پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا کہ ہماری مشکلیں دو ہیں کہ ہم عوام کی بات جانتے بھی نہیں اور مانتے بھی نہیں]۔ مندرجہ ذیل تحریر قائداعظم کے سیکرٹری  مطلوب الحسن سید کی ہے۔ 

میسور کے نندی پہاڑ پر قائداعظم نے کچھ عرصے قیام کیا۔ وہاں ایک خط موصول ہوا۔ جو آگرے سے آیا تھا۔ خط اُردو میں تھا۔ اور لکھنے والے نے رُول دار کاغذ استعمال کیا تھا جو غالباً کسی رجسٹر سے پھاڑا گیا تھا۔ یہ خط ایک تانگے والے نے لکھا تھا۔ خط گالیوں سے شروع ہوا تھا لیکن بعد میں لکھنے والے نے لکھا تھا کہ ہماری گالیوں کا بُرا نہ مانیں کیونکہ ہم تانگے والوں کی زبان ہی ایسی ہوتی ہے۔ دراصل یہ ہمارے پیار کی زبان ہے۔ 

یہ خط دو قسطوں میں موصول ہوا تھا۔ پہلی قسط میں اس نے لکھا تھا کہ میرے پاس ایک سواری آ گئی ہے۔ اس لیے باقی خط پھر لکھوں گا۔ 

چنانچہ دوسری قسط دوسرے روز مل گئی۔ اس خط کا لبِ لباب یہ تھا کہ راقم الحروف کا سب سے بڑا شکوہ قائداعظم سے یہ تھا کہ قائد نے مسلمانوں کی قیادت کی دوسری سیڑھی کا تعین نہیں کیا۔ اُس نے لکھا تھا کہ قائداعظم تمہاری وفات کے بعد مسلمانوں میں ایک خلا پیدا ہو جائے گا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو سیاست کے مخمصے میں پھنس جانے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے اپنے نیچے کی قیادت کو ابھی سے منظم کرنا شروع کر دو۔ 

قائداعظم نے حسبِ دستور مجھے کہا کہ میں یہ خط پڑھ کر سناوں لیکن میں نے خط کو آغاز سے پڑھ کر سنانے سے انکار کر دیا۔ اور عرض کیا کہ اس میں گالیاں لکھی ہوئی ہیں۔ 

انہوں نے فرمایا کوئی بات نہیں اس کو پڑھو۔ جب میں نے نہ پڑھنے پر اِصرار کیا تو وہ بہت خفا ہوئے اور مجھے جھڑک کر کہا کہ تم کو پڑھنا پڑے گا۔ 

قائداعظم کے اس رویہ سے مجھے سخت صدمہ ہوا اور میں روہانسا ہو گیا۔ لیکن انہوں نے دوبارہ کہا کہ تمہیں خط پڑھنا ہو گا۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ جس ماحول میں میری نشو و نما ہوئی ہے، اس نے میری زبان پر ایسی پابندی لگا دی ہے کہ ایسے الفاظ ادا کرنے کے لیے میری زبان کا پلٹنا مشکل ہے۔ 

اس پر وہ ذرا نرم ہوئے اور کہا کہ اچھا چھوڑ چھوڑ کر پڑھو۔ اس طرح وہ خط میں نے انہیں سنایا۔ لیکن جب میں اُس حصے پر پہنچا جہاں اُس نے قیادت کی دوسری سیڑھی کا ذکر کیا تھا تو اُنہوں نے کہا کہ دیکھو یہ خط معمولی نہیں ہے۔ اس تانگے والے نے بڑی دُوراندیشی کا ثبوت دیا ہے۔ اس خط کا اُسے جواب ضرور جانا چاہیے۔ 

لیکن تانگے والے نے اپنا خط کا پتا نہیں لکھا تھا۔ اس کا انہیں بیحد رنج ہوا۔ پھر مجھ سے کہا اس خط کا انگریزی میں ترجمہ کر کے مجھے دو۔

دو تین روز بعد انہوں نے اس خط کو پھر نکالا اور مجھ سے کہا کہ سیاست میں ٹھنڈے مزاج کی ضرورت ہے۔ سیاست میں رہ کر نہ تعریف کا اثر لینا چاہیے اور نہ گالیوں سے رنجیدہ ہونا چاہیے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے اپنا ضمیر صاف رکھو۔ انہوں نے کہا مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ مسلمانوں کی آیندہ قیادت کے لیے افراد کو منتخب کروں۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمان اپنی قیادت کے لیے خود ہی کسی کو منتخب کر لیں گے۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ مسلمانوں کی سیاست میری ملکیت تو نہیں ہے کہ میں اپنا جانشین مقرر کروں۔

ماخذ: قائداعظم میری نظر میں۔ مرتب زکریا ساجد، ناشر قائداعظم اکادمی کراچی۔ ص145سے 148  

Tuesday 6 December 2011

واسوخت اور شکوہ

 شیخ عبدالقادر جنہوں نے بانگِ درا کا دیباچہ لکھا، انہوں نے اپنے ایک مضمون میں علامہ اقبال کی نظم 'شکوہ' اور میر تقی میر کی واسوخت کی باہمی مماثلت پر زور دیا ہے۔ میں نے اپنی کتاب اقبال: تشکیلی دَور میں نظم 'شکوہ' کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اس بات کو ذہن میں رکھا۔ 

واسوخت نظم کی وہ قسم تھی جس میں محبوب سے شکایت کی جاتی تھی۔ میر تقی میر کی کلیات میں چار واسوختیں ہیں۔ ان چاروں کا مرکزی خیال یہی ہے کہ میر تقی میر اپنے محبوب سے کہتے ہیں کہ ہم نے ہی تمہاری نازبرداری کر کے تمہیں اتنا معتبر کر دیا کہ ہر شخص تمہاری طرف مائل ہونے لگا۔ اب تم غیروں کو ترجیح دینے لگے ہو اور ہم سے بے رُخی اختیار کی ہے تو ہم بھی کسی اور پر مہربان ہو کر اُسے تم سے زیادہ حسین و جمیل بنا دیں گے۔ لیکن اگر اب بھی مہربان ہو جاو تو ہم آج بھی وہی تمہارے دلدادہ ہیں۔

ظاہر ہے کہ تاریخی اعتبار سے یہ محبوب فارسی زبان بھی ہو سکتی ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے نہ صرف خود فارسی زبان و ادب میں دلچسپی لی تھی بلکہ ایران کے ٹھکرائے ہوئے شاعروں عرفی، ظہوری وغیرہ کو سرآنکھوں ہر بٹھایا تھا جس کے بارے میں علامہ اقبال نے بعد میں کہا

ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے
پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے

میر تقی میر دہلی کے اُن اولین شعرا میں سے ہیں جنہوں نے فارسی میں شعر کہنا چھوڑ کر اُردو شاعری کو معتبر بنایا۔ اس لحاظ سے میر کی واسوخت کا یہ مفہوم لیا جا سکتا ہے۔ 

اِس کے علاوہ دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ محبوب وہ بین الاقوامی مسلمان برادری ہے جس کے ہاتھوں برصغیر کے مسلمانوں نے زِک اٹھائی تھی۔

میر کا مطلب جو بھی ہو لیکن محبوب سے جس طرح انہوں نے شکایت کی بالکل وہی انداز علامہ اقبال نے اپنی نظم 'شکوہ' میں اللہ تعالی سے شکایت کرتے ہوئے اختیار کیا۔

میر کی واسخت کے کئی مصرعے بلکہ پورے بند ایسے ہیں جن کی بازگشت 'شکوہ'  میں صاف سنائی دیتی ہے، مثلاً میر کہتے ہیں

میں بھی ناچار ہوں اب منہ زباں رہتی نہیں

علامہ اقبال کی شکوہ کا پہلا بند ذہن میں لایے جس میں وہ کہتے ہیں

ہے بجا شیوہ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو مجبور ہیں ہم

اسی طرح 'شکوہ' کا وہ مشہور بند ذہن میں رکھیے کہ

ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر کہیں معبود شجر
خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر
تجکو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟
قوتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا

اب میر کی واسخت کا بند ملاحظہ ہو

پیشتر ہم سے کوئی تیرا طلبگار نہ تھا
ایک بھی نرگسِ بیمار کا بیمار نہ تھا
جنس اچھی تھی تری، لیک خریدار نہ تھا
ہم سِوا کوئی ترا رونقِ بازار نہ تھا
کتنے سودائی جو تھے دل نہ لگا سکتے تھے
آنکھیں یوں موند کے وے جی نہ جلا سکتے تھے


اسی بند پر غور کیجیے تو شکوہ کے بعض اور مصرعے بھی ذہن میں آ جائیں گے۔ کون سی قوم فقط تیری طلبگار ہوئی۔ ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اَڑ جاتے تھے۔ وغیرہ وغیرہ


شیخ عبدالقادر نے اپنے مضمون میں کئی مماثلتیں بیان کی ہیں۔ میں اِن دنوں انگلستان میں ہوں اِس لیے وہ مضمون پیش نہیں کر سکتا۔ پھر کبھی سہی۔

Monday 5 December 2011

امام حسین

علامہ اقبال نے 'رموزِ بیخودی' میں بتایا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت  کا مقاصد دنیا میں اُخوت، مساوات اور آزادی کا فروغ تھا۔ ان تینوں قدروں کے بارے میں اسلامی تصور کو علامہ نے ایک ایک تاریخی حکایت سے واضح کیا ہے۔ آزادی کے تصور کی وضاحت کے لیے کربلا کا واقعہ بیان کیا ہے۔ اس باب کا ترجمہ درجِ ذیل ہے۔ 

اِسلامی آزادی اور حادثہ ء کربلا کے راز کے بارے میں

جس کسی نے بھی ھُوَالمَوجُود کے ساتھ پیمان باندھا اُس کی گردن ہر معبود کے طوق سے آزاد ہو گئی۔
مومن عشق سے ہے اور عشق مومن سے ہے۔ ہمارا ناممکن عشق کے لیے ممکن ہے۔ 
عقل سفاک ہے اور عشق اُس سے بھی زیادہ سفاک ہے۔ زیادہ پاک، زیادہ چالاک اور زیادہ بیباک ہے۔
عقل اسباب اور وجوہات کے چکر میں پڑی ہوئی ہے ۔ عشق میدانِ عمل کا کھلاڑی ہے۔
عشق اپنے شکار کو زورِ بازو سے پکڑ لیتا ہے ۔ عقل مکار ہے اور جال پھینکتی ہے۔ 
عقل کا کام نااُمیدی اور شک سے نکلتا ہے۔ عشق کے لیے عزم اور یقین ناگزیر ہیں۔ 
وہ ویران کرنے کے لیے تعمیر کرتی ہے۔ یہ تعمیر کرنے کے لیے ویران کرتا ہے۔ 
عقل دنیا میں ہوا کی طرح عام ہے۔ عشق کمیاب اور مہنگا ہے۔
عقل کیسے اور کتنے کی بنیاد پر قائم ہے۔ عشق کے جسم پر کیسے اور کتنے کا لباس نہیں ٹھہرتا۔ 
عقل کہتی ہے اپنے آپ کو پیش کرو۔ عشق کہتا ہے اپنا امتحان لو۔
عقل اکتسابی ہے اس لیے غیر سے آشنا ہے۔ عشق خدا کی دین ہے اور اپنے آپ سے کام رکھتا ہے۔ 
 عقل کہتی ہے خوش رہو، آباد رہو۔ عشق کہتا کہ بندگی اختیار کرو تاکہ آزاد ہو جاو۔ 
عشق کی روح کا آرام آزادی میں ہے۔ آزادی اُس کی اونٹنی کی ساربان ہے۔

کیا تم نے سُنا کہ جنگ کے وقت عشق نے ہوس پیشہ عقل کے ساتھ کیا کیا؟
وہ عاشقوں کے امام، جنابِ بتولؓ کے لختِ جگر، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ میں آزادی کا درخت-
اللہ کی شان دیکھو کہ باپ بسم اللہ کی ب اور بیٹا ذبحِ عظیم والی آیت کی تفسیر ہے
سب سے بہتر ملت کے اُس شہزادے کے لیے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کاندھا سواری کا نعم البدل بن گیا۔ 
غیرتمند عشق اُس کے لہو سے سرخ ہے۔ اُس کے مضمون سے اِس مصرع کی شوخی ہے۔
وہ عالی مرتبت ہستی اُمت میں ایسے ہے جیسے اُم الکتاب میں قل ھو اللہ احد!
موسیٰ اور فرعون، شبیر اور یزید دو قوتیں ہیں جو زندگی سے پیدا ہوتی ہیں۔ 
حق شبیر کی قوت سے زندہ ہے۔ باطل کا انجام ناکامی کی موت کا داغ ہے۔ 
جب خلافت نے قرآن سے رشتہ توڑ لیا تو آزادی کے منہ میں زہر ڈل گیا۔ 
تب خیرُ الاُمم کا وہ جلوہ آرا کعبہ کے بادل کی طرح اپنے دامن میں مینہ سمیٹ کر اُٹھا۔
کربلا کی زمین پر برسا اور گزر گیا۔ ویرانوں میں لالے کے پھول اُگائے اور گزر گیا۔ 
قیامت تک کے لیے استبداد کا خاتمہ کر گیا۔ اُس کے لہو کی موج نے باغ کھِلا دیا۔
حق کی خاطر خاک و خون میں لوٹ گیا اور یوں لا الٰہ کی بنیاد مضبوط کر دی۔ 
اگر آپؓ کا مدّعا سلطنت ہوتی تو آپ کبھی ایسے سازو سامان کے ساتھ سفر نہ کرتے،
آپؓ کے دشمن صحرا کی ریت کے ذروں کی طرح لاتعداد اور آپ کے ساتھی ”یزداں“ کے لفظ کے ہم عدد یعنی صرف بہتّر۔ 
آپؓ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ کا راز تھے یعنی آپ اُس اجمال کی تفصیل تھے۔
آپؓ کا عزم کوہساروں کی طرح ڈٹا ہوا، ثابت قدم، چٹیل اور کامیاب تھا۔ 
تلوار صرف دین کی عزت کے لیے ہے ۔ اُس کا مقصد قانون کی حفاظت کے سوا کچھ اور نہیں۔
مسلمان اللہ کے سوا کسی کا غلام نہیں ہے۔ فرعون کے سامنے سر نہیں جھکاتا۔ 
آپؓ کے لہو نے اِس راز کی تفسیر بیان کر دی۔ سوئی ہوئی قوم کو بیدار کر دیا۔ 
جب آپؓ نے ”لا“ کی تلوار میان سے نکالی تو باطل کے سرپرستوں کی رگوں سے لہو کھینچ لیا۔
اِلا" کا نقش صحرا پر لکھ دیا۔ وہ ہماری آزادی کے عنوان کی سطر بن گئی۔" 
 ہم نے قرآن کے چُھپے ہوئے معنی حسینؓ سے سیکھے ہیں۔ آپؓ کی آگ سے شعلے اکٹھے کیے ہیں۔ 
شام کی شوکت اور بغداد کی شان رخصت ہو گئی۔ غرناطہ کی سطوت بھی یاد سے محو ہو گئی۔ 
تب بھی ہمارے ساز کے تار آج تک آپؓہی کے مضراب سے ہل رہے ہیں۔ آپ ہی کی تکبیر سے آج تک ہمارے ایمان تازہ ہیں۔ 
اے صبا! اے دُور پڑے ہوو ں کی قاصد! ہمارے آنسو لے جا کر اُن کی خاکِ پاک پر 
برسا دے۔


رموز بیخودی از علامہ اقبال۔ ترجمہ خرم علی شفیق 

Saturday 3 December 2011

میر کے دین و مذہب کو

میر تقی میر کا غم انفرادی اور ذاتی تھا
یا پورے مسلمان معاشرے کے غم
انہوں نے اکٹھے کیے تھے؟
ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
میر تقی میر اور مرزا غالب کے یہاں عشق و عاشقی اور رونے دھونے کے سِوا کیا رکھا ہے؟ آج یی غلط فہمی دُور کیجیے۔ 

جب ایک نئی نظریاتی مملکت وجود میں آتی ہے تو اُسے اپنے تمام علوم کو اپنے نظریے کی روشنی میں از سرِ نَو دیکھنا پڑتا ہے۔ کمیونسٹ ملکوں نے تو آسمانی صحیفوں کی تفسیر بھی روٹی، کپڑا اور مکان کے دائرے میں کر کے رکھ دی تھی۔ 


بھارت نے بھی میر اور غالب وغیرہ کو اُس ہندی نیشنلزم کی روشنی میں دیکھا ہے جو 1885میں کانگریس کے قیام سے پہلے پورے ہندوستان میں کہیں موجود نہ تھا۔ مگر افسوس کہ پاکستانی دانشور اپنے فرض سے غافل رہے۔ 


پاکستان، قوم سے محبت کے نظریے پر قائم ہوا چنانچہ پاکستان کی ضرورت ہے کہ تمام بڑے شاعروں کی شاعری کو اِس معیار پر جانچا جائے کہ اگر اُن کے اشعار میں محبوب کی جگہ قوم کو رَکھ دیا جائے تو کوئی خاص معانی نکلتے ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں نکلتے تو وہ شاعر ہمارے کام کا نہیں ہے۔ اگر نکلتے ہیں تو کام کا ہے۔

میر تقی میر اٹھارہویں صدی کی دہلی میں رہتے تھے۔ صدیوں سے یہاں فارسی بولنے کا رواج تھا۔ ہمارے دل و دماغ میں ایران ہر طرح کے حسن و نزاکت کی آماجگاہ تھا۔ پھر ایک دن یوں ہوا کہ ایرانی شہنشاہ نادر شاہ کے سپاہی دہلی میں قتل عام کرنے لگے۔ شرفا کی عزتیں برباد ہو گئیں۔ بازاروں میں لاشوں کے انبار لگ گئے۔ یہی سب کچھ بعد میں نادر شاہ کے جانشین احمد شاہ ابدالی کے سپاہیوں نے بھی کیا [نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی دونوں کو اُن کے بعض اچھے کارناموں کی وجہ سے علامہ اقبال نے جنت الفردوس میں دکھایا ہے مگر وہ ایک علیحدہ بات ہے جس پر کبھی اور عرض کروں گا]۔ 

میر تقی میر کے دل و دماغ میں ایک بہت بڑا سوال پیدا ہوا: میں ایک ہندی مسلمان ہوں تو میرا باقی اُمتِ مسلمہ سے کیا رشتہ ہے؟

میر نے بیہودہ اور فضول اشعار بھی لکھے ہوں مگر جب وہ اپنے وجود کی گہرائی میں ڈوبتے ہیں تو اُن کا وجود ہندوستان [اور آج کے پاکستان] کے مسلمانوں کا نمایندہ بن جاتا ہے۔ محبوب وہ بین الاقوامی مسلمان برادری جو کل تک ہمیں سر 
آنکھوں پر بٹھاتی تھی مگر آج گھاس نہیں ڈالتی، ہم پر ظلم کرتی ہے۔

دکھائی دیے یوں کہ بیخود کیا
ہمیں آپ سے بھی جُدا کر چلے

یہاں "آپ"سے مراد "اپنے آپ"ہے۔ میں یہ دعویٰ نہیں کر رہا کہ میر کہیں بیٹھ کر دوقومی نظریے کا درس دیا کرتے تھے۔ بات یہ ہے کہ وہ جس معاشرے کا حصہ تھے وہ پوری دنیا کی مسلمان برادری سے کچھ اِسی طرح جُڑا ہوا تھا کہ اُس معاشرے کے ایک حساس فرد کے ضمیر کی تہہ میں اِس رشتے کا عکس دکھائی دینا لازمی بات تھی۔ 

میر کی اہمیت یہ ہے کہ اگر ہم اُن کے ضمیر میں جھانک کر برصغیر کے مسلمان معاشرے کا باقی دنیا کے مسلمانوں یعنی اپنے محبوب کے ساتھ رشتہ تلاش کریں تو وہ رشتہ ہمیں اِس سوال کی صورت میں ملتا ہے: کیا ہم برِ صغیر کے مسلمان بین الاقوامی مسلمان برادری سے رشتہ توڑ کر ہندی قومیت اپنا لیں؟

میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو اُن نے تو
قشقہ کھینچا، دَیر میں بیٹھا، کب کا تَرک اسلام کیا

یہ شعر ذرا غور سے پڑھیے، اسلام کی دولت ہاتھ سے جانے کا افسوس اور درد جس طرح اِس شعر میں جھلکتا ہے وہ صرف محسوس کرنے کی چیز ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہی سوال ڈیڑھ دو سو برس بعد برصغیر کے تمام مسلمانوں کے سامنے آیا اور اُنہوں نے یہی جواب دیا کہ نہیں ہم اپنی اسلامی قومیت پر جان، مال، عزت ناموس سب کچھ لٹانے کے لیے تیار ہیں۔ یہ واقعہ کہ کروڑوں مسلمانوں نے اسلامی قومیت پر سب کچھ قربان کر دیا بذاتِ خود انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ حیرت انگیز واقعات میں سے ہے۔ 

مغربی محققین تو یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ مسلمان پاگل ہو گئے تھے اور بھارتی مورخ بھی یہی دُہرا دیتے ہیں لیکن اگر ہم پاگل ہو گئے تھے تب بھی اِتنے بڑے پاگل دس بیس برسوں میں نہیں بنتے۔ کم سے کم دو تین سو برس پیچھے سے وجوہات تلاش کرنی پڑیں گی۔ ادب، فن، جذبات، محسوسات، ذہنی رویے اور دل کی دھڑکنیں آخر کس کس طرح پروان چڑھتے رہے تھے کہ اِتنی بڑی دیوانگی ہم سے سرزد ہوئی جس پر ہمیں دونوں جہانوں میں فخر ہو سکے۔  


زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

تب شاید ہمیں معلوم ہو کہ میر تقی میر نے محسوس کر لیا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو نشہ اِسی اسلامی قومیت کا ہے اور یہ نشہ اِتنا زیادہ ہے کہ اب اس میں اضافے کی کوئی خاص ضرورت نہیں، اب کام بن چُکا ہے۔


آج بھی پاکستانی مسلمان شاید دنیا کا آخری مسلمان ہے جو علاقائی وطنیت پر فِدا ہونے کی بجائے ملتِ اسلامیہ کا روگ سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ ایرانی ہمیں گھاس نہیں ڈالتا، افغانی ہمارا نام آتے ہی گالیاں بکنا شروع کر دیتا ہے، عرب ہمیں حقیر سمجھتا ہے اور افریقی ہمیں غیر کہتا ہے مگر ہم ہیں کہ پھر بھی اسلامی وحدت کے نام پر ان میں سے کسی کے لیے بھی گھربار دوبارہ لٹانے پر تیار ہیں۔ اسلامی قومیت کو ایک نشہ سمجھ لیا جائے تو ہر پاکستانی دنیائے اسلام سے آج بھی کہہ سکتا ہے کہ

یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب جام دو تو خالی ہی دو میں نشے میں ہوں


اگر آپ اب بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ کیا میر کی شاعری میں واقعی اِتنی توانائی ہو سکتی ہے تو جواب یہی ہے کہ علامہ اقبال کی نظم "شکوہ" بھی میر ہی کی ایک مشہور نظم سے ماخوذ ہے۔ 


یہ بات علامہ کے قریبی دوست شیخ عبدالقادر نے ایک مضمون میں وضاحت کے ساتھ بیان کی۔ وہی شیخ عبدالقادر جنہوں نے بانگِ درا کا دیباچہ لکھا تھا۔ اب پہلے میر کی وہ نظم تلاش کیجیے، پھر بات آگے بڑھے گی۔ 


مگر آپ کہاں تلاش کریں گے، میں ہی اگلی پوسٹ میں بتا دوں گا۔

Wednesday 30 November 2011

جستجو ٹی وی

حسین حقانی کا استعفیٰ

 امریکہ میں ہمارے سفیر نے جن حالات میں استعفیٰ دیا اُس پر مجھے شبن یاد آیا۔ سوچا کہ بلاگ پر لکھوں مگر باز رہا کہ بدشگونی نہ ہو جائے۔ وہ خودبخود ہو گئی۔ اس لیے اب تفصیل حاضر ہے۔

۔شبن فلم ارمان میں ایک کردار ہے۔ گھر میں ملازم ہے۔ اُس کا تکیہ کلام ہے، "جھوٹ بولت ہیں تو بیوقوف کہلاوَت ہیں۔ سچ بولت ہیں تو مار کھاوَت ہیں۔ بس ہو گیا فیصلہ: ہم ناہی کریں گے نوکری۔" [جھوٹ بولتے ہیں تو بیوقوف کہلاتے ہیں۔ سچ بولتے ہیں تو مار کھاتے ہیں۔ بس ہو گیا فیصلہ: ہم نہیں کریں گے نوکری]۔

فلم کے ساتویں حصے میں یوں ہوتا ہے کہ میاں شبن جس گھر میں کام کرتے ہیں وہاں ایک غلط قسم کا خط پہنچاتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔ 

"کم بخت نمک حرام تو یہاں قاصد کا کام کب سے کر رہا ہے؟"

"ہم کو مارَت کاہے ہو سرکار۔۔۔"

سفیر صاحب کے استعفے سے پہلے جو واقعات پیش آئے اُن کے بارے میں پڑھتے ہوئے مجھے یہ مکالمہ بیساختہ یاد آیا۔ رہا بدشگونی کا معاملہ تو فلم میں اِس منظر کے کچھ ہی دیر بعد وہ شخص جس نے خط بھیجا تھا، گھر میں گُھس کر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ فلم کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن یہاں معاملہ دو ممالک کا تھا لہِٰذا ایسی منحوس بات لکھنا مجھے کچھ اچھا نہ لگا۔ 

دو چار دنوں میں وہ منحوس بات ہو ہی گئی۔ امریکی افواج نے پاکستانی سپاہیوں پر حملہ بھی کر دیا۔

خدا کرے کہ باقی سب خیریت رہے۔ بہرحال اب آپ فلم کے دونوں مناظر کی ویڈیو دیکھ سکتے ہیں۔ پہلے وہ خط پکڑے جانا والا واقعہ ملاحظہ فرمایے۔ اگر آپ تفریح کے مُوڈ میں ہوں تو شبن کو سفیر، ناصر یعنی وحید مراد کو پاکستانی عوام اور خاتونِ خانہ کو اپنی حکومت بھی سمجھ سکتے ہیں۔  


۔اب ہیرو کے گھر میں ولن کے حملہ آور ہونے کا منظر دیکھیے۔



پچھلی چند پوسٹس کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گئی تھیں لہٰذا آج کچھ اور سہی۔ پھر بھی آپ مجھ سے علامہ اقبال کا کوئی شعر سننے ہی پر مصر ہوں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ 
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

Sunday 27 November 2011

اُردو ادب کے عناصرِ خمسہ

کالجوں میں ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ اُردو ادب کے پانچ عناصرِ خمسہ ہیں: سر سید احمد خاں، مولانا حالی، مولانا شبلی نعمانی، مولانا محمد حسین آزاد اور ڈپٹی نذیر احمد۔ کیا یہ بات درست ہے؟

اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِن پانچوں بزرگوں نے جدید اُردو ادب کی تعمیر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا مگر اِنہیں جس طرح عناصرِ خمسہ کی ترکیب میں جوڑا جاتا ہے وہ بیسویں صدی کے شروع میں اُس وقت کیا گیا جب اُس وقت کے ادیبوں کی نئی نسل مولانا حالی کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹنے لگی تھی۔

مولانا حالی کا بتایا ہوا راستہ یہ تھا کہ ادب کی قدر و قیمت قومی مقاصد کی روشنی میں متعین کی جاتی ہے۔ 

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سر سید، مولانا حالی اور مولانا شبلی نعمانی دوقومی نظریے کے امین تھے۔ انہوں نے ادب کی بنیاد قومی مقاصد پر رکھی۔ اس کے علاوہ ان تینوں بزرگوں کی نمایاں خصوصیت عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھی جس کے بارے میں مزید کچھ عرض کروں گا۔

مولانا محمد حسین آزاد اور ڈپٹی نذیر احمد کا معاملہ کچھ اور تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی خدمات سنہرے لفظوں میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ ہمارے طلبہ کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان دونوں نے انگریزی ادب سے انشاپردازی اور ناول کی اصناف کو اُردو میں منتقل کرتے ہوئے بعض ایسی اختراعات کیں جو انگریزی میں موجود نہیں تھیں۔ ان کی وجہ سے اُردو ادب کا دامن زیادہ وسیع ہو گیا جس کا اندازہ ہمیں ابھی تک نہیں ہے۔ 

لیکن یہ دونوں بزرگ قومی محبت کے اُس تصور کے مبلغ نہیں تھے جو بقیہ تین بزرگوں نے پیش کیا تھا۔ شبلی کا ہیرو اورنگزیب تھا، آزاد کا ہیرو اکبرِ اعظم تھا۔ 

مولانا حالی نے شیخ سعدی شیرازی کی سوانح لکھی اور اُنہیں اپنا پیر و مرشد قرار دیا، اِسی طرح شبلی نعمانی نے سوانح مولانا روم لکھی۔ مگر ڈپٹی نذیر احمد نے شیخ سعدی کی گلستان پر اعتراض کیا کہ اس کے بعض حصے فحش ہیں اس لیے یہ کتاب طلبہ کو پڑھائے جانے کے لائق نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ پھر مولانا روم کی مثنوی کے بارے میں بھی ان کی یہی رائے رہی ہو گی۔

چنانچہ یہ ظاہر ہے کہ ان بزرگوں کے درمیان اس بات پر کچھ اختلاف ضرور تھا کہ ادب کے معاملے میں قوم کو کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ آخر میں قوم نے پانچوں بزرگوں کو عزت احترام کا مقام دیا مگر رہنمائی صرف سر سید، حالی اور شبلی کی قبول کی جبکہ آزاد اور نذیر احمد کے مشورے کو قوم نے قبول نہ کیا۔ 

جہاں تک عشق رسول کا معاملہ ہے ہمارے ادب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ کہ 1867میں سر سید احمد خاں نے جب خطبات احمدیہ لکھنے کا ارادہ کیا وہاں سے لے کر 1947تک پورے اسی برس ہمارے ادب پر ایسا دَور رہا جب عشق رسول کے سوا ہمارے پاس کوئی اور موضوع تھا ہی نہیں۔ سر سید کی سب سے اہم تصنیف کون سی ہے؟ خطباتِ احمدیہ۔ مولانا حالی کی سب سے مشہور نظم کون سی ہے؟ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا۔ مولانا شبلی کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ سیرۃ النبی۔ علامہ اقبال کی شاعری میں کون سا جذبہ سب سے زیادہ نمایاں ہے؟ عشق رسول۔

اُس زمانے کے بعض بزرگوں کی روایات ہم تک پہنچی ہیں۔ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں بازار حُسن میں بھی مولانا حالی کی یہ نعت گائی جاتی تھی: وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا۔ یہ طاقت تھی اُس ادب کی اور یوں اُس نے معاشرے پر سحر قائم کیا تھا کہ مسجد سے لے کر گناہوں کے محلے تک کسی کو نہیں چھوڑا تھا۔

صوفیوں میں ایک مقولہ ہے کہ اگر کوئی مرید چالیس دن تک اپنے پِیر و مرشد کا
 تصور کرے تو اُسے مستقبل کی باتیں بھی معلوم ہو جاتی ہیں، غیب کے بعض اسرار خدا کی مرضی سے اُس پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ بات درست ہے یا نہیں لیکن میں اکثر یہ ضرور سوچتا ہوں کہ جس قوم نے اَسی برس تک سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ڈوبنے ہی کو اپنا علم، ادب، تفریح اور سب کچھ قرار دیا ہو اُس کا مستقبل شاید خدا نے کچھ محفوظ کر دیا ہو۔  

خیر وہ ایک الگ بات ہے۔ اب آپ ویڈیو دیکھیے: وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے 
والا۔

Saturday 26 November 2011

ملت کا پاسباں

ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح
علامہ اقبال کی شاعری جس مقام پر پہنچ کر ختم ہوئی وہ اُس منزل کا انتظار تھا جہاں قوم ایک روح کی طرح متحد ہو کر آزاد اسلامی ریاست کے لیے جدوجہد کرے۔ یہ منزل مارچ ۱۹۴۰ء میں آئی جب لاہور میں قراردادِ پاکستان پیش ہوئی۔ مسلم لیگ کے اس تاریخی اجلاس میں ایک نظم پڑھی گئی جسے علامہ اقبال کے بعد ہماری شاعری کا اگلا موڑ سمجھنا چاہیے: ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح۔

شاعر کا نام میاں بشیر احمد تھا۔ برسوں پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تاریخ میں  ڈگری لے کر اور لندن سے بیرسٹری کی سند حاصل کر کے وطن واپس آئے تھے اور ۱۹۱۸ میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں اپنے آپ کو قوم کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسلامیہ کالج میں پروفیسری شروع کی۔ 

ان کے والد میاں شاہ دین ہمایوں لاہور کی ممتاز سماجی اور ادبی شخصیت تھے۔ علامہ اقبال کے ادبی سرپرستوں میں سے تھے۔ فوت ہوئے تو میاں بشیر نے ان کی یاد میں رسالہ ہمایوں نکالا جو بہت جلد ایک انتہائی اہم ادبی اور تفریحی رسالہ بن گیا۔ اس کے پہلے شمارے کے لیے نظم کی درخواست لے کر علامہ اقبال کے پاس گئے تو علامہ نے شاہ دین ہمایوں کی یاد میں وہ نظم لکھی جو بانگِ درا میں 'ہمایوں' کے نام سے شامل ہے اور جس کا آخری شعر بیحد مشہور ہے۔۔۔

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی

تحریک پاکستان شروع ہوئی تو میاں بشیر احمد نے طلبہ کو مطالبہء پاکستان کے  لیے تیار کرنے میں دوسروں سے کچھ زیادہ ہی حصہ لیا۔ قائد اعظم بھی قدر کرتے تھے۔

کیا ایسا شخص اِس قابل بھی نہیں ہے کہ ہم اُسے شاعروں میں شمار کریں اور اُس کی شاعری پر سنجیدگی سے بات کریں؟ بدقسمتی سے ہمارے ادب کے ٹھیکیداروں نے یہی رویہ اپنایا ہے۔ شاید اس لیے کہ اگر علامہ اقبال کے بعد ہم میاں بشیر احمد پر پہنچ جائیں تو ہمارے ادب کی گاڑی کے پٹری سے اُترنے کا امکان بہت کم ہو جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے بڑے ادیبوں کی پوری کوشش ہی یہی رہی ہے کہ ادب کی گاڑی کو ہائی جیک کر کے ماسکو، پیرس یا کہیں اور لے جائیں۔

میاں بشیر احمد کی نظم کی پہلی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ علامہ اقبال نے جن چیزوں کا تذکرہ محض تصور کے طور پر کیا تھا یا انہیں مستقبل میں حاصل کرنے کی امید دلائی تھی، یہ نظم اعلان کرتی تھی کہ وہ چیزیں اب حقیقت کے روپ میں ہمارے سامنے آ گئی ہیں۔ قوم کی روح، تقدیر کی اذاں، کارواں کا دوبارہ روانہ ہونا، وغیرہ وغیرہ یہ سب استعارے علامہ کی شاعری سے ماخوذ تھے جنہیں استعمال کرتے ہوئے میاں بشیر نے بتا دیا کہ اب ہمیں ان اشاروں کے لیے مستقبل کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، صرف اسٹیج کی طرف دیکھنا کافی ہے جہاں محمد علی جناح مسلمانوں کے قائدِ اعظم کے روپ میں بیٹھے ہیں۔

دوسری خصوصیت یہ ہے کہ الفاظ اگرچہ وہی ہیں جو علامہ کی شاعری میں اکثر استعمال ہوئے اور عموماً فارسی آمیز ہیں، مگر میاں بشیر کی نظم میں وہ ذرا آسان ہو جاتے ہیں۔ گویا یہ نظم ایک رابطہ ہے جس کے ذریعے ہم نئے زمانے کی آسان اُردو سے شروع کر کے علامہ اقبال کی اُردو تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ رابطہ ٹوٹ جانے سے علامہ اقبال کے زمانے کی اُردو سمجھ میں آنا مشکل ہو جاتی ہے۔

تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ نظم مسلمان عوام میں بالکل اُسی طرح مقبول ہوئی جس طرح علامہ اقبال کی نظمیں مقبول ہوتی تھیں۔


ہم نے اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں جدید اُردو ادب اور جدید اُردو شاعری کےہ نام پر جو کچھ پڑھا ہے، جھک ماری ہے۔ آئیے آج پہلا سبق لیں: جدید اُردو شاعری یعنی علامہ اقبال کے بعد کی شاعری کا آغاز اسی نظم سے ہوتا ہے جو میاں بشیر احمد نے لکھی اور ۲۲ مارچ کو یعنی قرارداد پاکستان سے ایک روز قبل تاریخی جلسے میں پڑھی گئی اور جو بچپن سے ہمیں پسند ہے۔ 

کیا آپ کسی نظم کو صرف اِس لیے عظیم شاہکار تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے کہ وہ آپ کو پسند ہے؟ مجھے شبہ ہے کہ آپ نے اب تک شائد یہی کیا ہے۔ اب مت کیجیے۔ 


کسی نظم کے مقام اور مرتبے کا اندازہ اُس زمانے کی دوسری نظموں سے موازنہ کر کے بھی لگایا جاتا ہے۔ اب اندازہ لگائیے کہ جس زمانے میں یہ نظم پیش کی گئی قریباً اُسی زمانے میں فیض احمد فیض کی نظم "مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ" سامنے آئی تھی۔ کیا ہم اُس شخص کو ذہنی بیمار اور روحانی مریض نہیں کہیں گے جس کے خیال میں "مجھ سے پہلی سی محبت" تو ایک عظیم نظم ہو اور "ملت کا پاسباں" سرے سے ادب میں شمار ہونے کے قابل ہی نہ ہو؟


ہمارے پروفیسروں، دانشوروں اور نقادوں نے عموماً یہی کیا ہے۔ اُن کے دماغ خراب ہیں، خدا کے لیے اُن کے پیچھے چلنا چھوڑ دیجیے۔ وہ آپ کو صرف غلامی کے جہنم میں لے جائیں گے کیونکہ انہیں خود وہیں جانا ہے۔ آزادی انہیں راس نہیں آئی۔ وہ آپ کو آپ کے ادب سے، آپ کے ورثے سے محروم کر رہے ہیں۔


یہ آپ کا ادب ہے، آپ کا ورثہ ہے۔ کیا کسی کو حق ہونا چاہیے کہ آپ کو اِس سے محروم کر دے؟ اپنے ورثے کی حفاظت آپ نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟ خدا کے لیے اپنے دل و دماغ سے فیصلہ کرنے کی عادت ڈالیے۔ اُس بیماری سے نجات پائیے جو تعلیم کے زہر نے ہم سب میں پیدا کی ہے۔


ویڈیو دیکھیے اور کمنٹ کے تحت صرف اتنا لکھ دیجیے کہ کیا آپ کے خیال میں یہ ایک عظیم نظم ہے؟ [باقی آیندہ]۔


ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح

صد شکر پھر ہے گرمِ سفر اپنا کارواں
اور میرِ کارواں ہے محمد علی جناح

تصویرِ عزم، جانِ وفا، روحِ حریت
ہے کون؟ بے گماں ہے محمد علی جناح

لگتا ہے ٹھیک جا کے نشانے پہ اُس کا تیر
ایسی کڑی کماں ہے محمد علی جناح

ملت ہوئی ہے زندہ پھر اُس کی پکار سے
تقدیر کی اذاں ہے محمد علی جناح 

Tuesday 22 November 2011

ستارہ یا سُورج؟

مصنف، فلمساز اور اداکار وحید مراد
1938-1983
ایسی شخصیات کی مقبولیت کا تجزیہ کر کے معاشرہ اپنے بارے میں جان سکتا ہے۔ 

عام طور پر غیرمعمولی مقبولیت کی وجوہات یہ ہوتی ہیں: سیاسی پس منظر، معاشرے کا ماحول، تاریخی روایات، ادبی اور نفسیاتی استعارے، اقدار اور نصب العین وغیرہ۔

وحید مراد کی غیرمعمولی مقبولیت کا زمانہ مارچ 1966 سے شروع ہوتا ہےجب فلم ارمان ریلیز ہوئی جس کی کہانی اُنہوں نے خود لکھی تھی اور فلمساز بھی وہی تھے۔

چند ماہ پہلے 1965کی جنگ میں کامیابی کے ساتھ اپنے ملک کا دفاع کرنے کے بعد قوم کے حوصلے بلند تھے۔ جنگ کے دوران شروع ہونے والا قومی نغموں اور ترانوں کا دَور ابھی ختم نہیں ہوا تھا بلکہ حُبُ الوطنی پر مبنی ادب کی بہار آئی ہوئی تھی۔ 

دوسری طرف تاشقند کے معاہدے میں فوجی حکومت نے جو شرائط قبول کی تھیں اُنہیں عام طور پر بزدلی سے تعبیر کیا جا رہا تھا۔ یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام کی اُمنگوں کا زیادہ احترام کرتی ہو۔ 

فلم ارمان میں غیرمحسوس طور پر وہی جذبات موجزن تھے جو قومی نغموں میں استعمال ہوئے تھے، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ وہاں محبت کا موضوع وطن تھا اور یہاں محبوب۔ لیکن جو عوام صدیوں سے عشقِ مجازی کی شاعری میں عشقِ حقیقی تلاش کرتے آئے ہوں اُن کے  لیے یہ فرق آخر کتنا اہم ہو سکتا تھا؟ 

یہ اپنی جگہ خود بہت بڑی بات ہے کہ عشقِ مجازی کے لٹریچر میں ایسے جذبات پیش کر دیے جائیں جنہیں آپ وطن سے مخاطب ہو کر کہیں تو آپ کی نظریاتی بنیادوں کی مکمل تشریح بن جائیں۔


دل چاہے تو تجربہ کر لیجیے۔ پاکستان کو مخاطب کر کے مندرجہ ذیل مصرعے پڑھیے اور فیصلہ کیجیے کہ کیا یہ اُس "ارمان"کی مکمل عکاسی نہیں جو پاکستان بنانے والوں کے دلوں میں پاکستان کے لیے تھے؟ 

دیا حوصلہ جس نے جینے کا ہم کو
وہ اِک خوبصورت سا احساس ہو تم
جو مٹتا نہیں دل سے تم وہ یقیں ہو
ہمیشہ جو رہتی ہے وہ آس ہو تم
یہ سوچا ہے ہم نے کہ اب زندگی بھر
تمہاری محبت کو سجدہ کریں گے


فسانہ جو اُلفت کا چھیڑا ہے تم نے
ادھورا نہ رہ جائے یہ سوچ لینا
بچھڑ کے زمانے سے پایا ہے تم کو
کہیں ساتھ تم بھی نہ اب چھوڑ دینا۔۔۔

اسکرین پر وحید مراد کی جو شخصیت اُبھرتی تھی وہ اِس موضوع کے ساتھ انصاف کرتی تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ انگریزی ادب میں ایم اے کیا تھا۔ مطالعہ بیحد وسیع تھا۔ نہ صرف ارمان بلکہ بعد کی فلموں میں بھی عام طور پر اُن کا کردار ایسے شخص کا ہوتا تھا جو اپنے ماحول سے غیرمطمئن ہو کر کسی بہتر آئیڈیل کی جستحو کرتا ہے مگر معاشرے کی اخلاقی اقدار کا محافظ بھی ہے۔

اِس کے علاوہ ایک خاص بات تھی۔ یہ طے ہے کہ ہیرو کو ہیرو نظر آنے کے لیے خوداعتمادی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ اِس کے لیے عام طور پر اداکار ایک ایسے انداز کا سہارا لیتے ہیں جس میں دوسروں کو اہمیت نہ دینے کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ وہ فریم میں داخل ہی یوں ہوتے ہیں جیسے شیر شاہ سوری ہمایوں سے سلطنت چھیننے آیا ہو۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ یہ شخص نہ کسی کی بات سنے گا نہ سمجھے گا۔ یوں آپ اُس کی برتری تسلیم کر لیتے ہیں۔ وہ ہیرو بن جاتا ہے۔ وحید مراد کا معاملہ برعکس تھا۔

 وحید مراد کے حرکات و سکنات اور لب و لہجے سے ایک عجیب قسم کا اشتیاق ظاہر ہوتا تھا جیسے ہر شخص کی بات سننے اور سمجھنے کے لیے بیتاب ہیں۔ اِس خواہش میں آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہیں کہ جس کے دل میں جو کچھ بھی ہے اُسے محسوس کر لیں۔




یہ انداز صرف وحید مراد ہی کے ساتھ آیا۔ دنیا کے بڑے بڑے سُپراسٹارز سے موازنہ کر لیجیے [اگر آپ فلمیں نہیں دیکھتے تو ٹیلی وژن پر نظر آنے والے کمپئرز یا دانشوروں سے موازنہ کر سکتے ہیں]۔ دلیپ کمار، بریڈ پِٹ، امیتابھ بچن، شاہرُخ خان یا کوئی بھی جسے آپ خواہ وحید مراد سے بڑا اسٹار کہیں یا چھوٹا، وہ اِس بات میں مقابلہ نہیں کر سکتا کہ وحید مراد وہ ہیرو ہے جس کی حرکات و سکنات  یعنی پوری باڈی لینگوئج مخاطب کو اہمیت دلوانے میں صرف ہو جاتی ہے۔ وہ اپنا ہیرو ہونا دوسروں کی اہمیت گھٹانے سے نہیں بلکہ بڑھانے سے ثابت کرتا ہے۔ 

 شائد یہ اِس لیے بھی تھا کہ وحید مراد بعد میں اداکار تھے، پہلے ایک مصنف اور فلمساز تھے جن کے پاس کچھ پختہ افکار تھے، پیغام تھے جنہیں وہ دوسروں تک پہنچانا چاہتے تھے۔ 




بُدھ کے روز وحید مراد کی برسی ہے۔ اِسی سلسلے میں یہ پوسٹ لکھی لیکن اب سوچ رہا ہوں کہ اِس میں زیادہ تعریف وحید مراد کی ہوئی ہے یا اُس قوم کی جس نے اپنے لیے سپر اسٹار بھی منتخب کیا تو خاصا سُلجھا ہوا۔ پسند اپنی اپنی، نصیب اپنا اپنا۔  

Friday 18 November 2011

اصلاح کیسے کریں؟

مجھے لگتا ہے کہ ہم سے پہلے کی نسل کے لوگوں میں بھی خامیاں تھیں مگر وہ انہوں نے دُور کر لیں۔ ہم کیسے کریں؟

یہ سوال مجھے کچھ عرصہ پہلے ایک نوجوان طالب علم کی طرف سے ایمیل میں موصول ہوا۔ اُردو بلاگ کی ابتدائی پوسٹس اِسی سوال کا جواب ہیں: تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں اپنے معاشرے کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل بنائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے بارے میں جانتے ہوں اور معاشرے کی اجتماعی رائے پر عمل درآمد کروانے کے لیے تیار بھی ہوں۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ میں جو کچھ بھی کہہ سکتا ہوں وہ اس مختصر سی بات میں آ جاتا ہے۔ باقی محض تشریح ہے، سو وہ بھی پیش کر رہا ہوں۔

اپنے معاشرے کے بارے میں جاننے کی چیزیں پانچ ہیں: تاریخ، ادب، سیاست، مذہب و سائنس اور تعلیم۔ 
  • تاریخ کا مطلب ہے کہ ہماری قوم نے اجتماعی طور پر کون کون سے اہداف مقرر کیے اور انہیں کس طرح حاصل کیا۔
  • ادب اُس چیز کا نام ہے جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جو ہدف قوم نے اپنایا ہے اُس میں کون سے آئیڈیلز یعنی مقاصد چُھپے ہوئے ہیں۔
  • سیاست اُن آئیڈیلز کو عملی جامہ پہناتی ہے جو ہمارے ادب سے برآمد ہوتے ہیں۔
  • مذہب اور سائنس اُس حقیقت کے معانی سمجھاتے ہیں جو مندرجہ بالا عمل سے ہمارے اطراف میں وجود پاتی ہے۔
  • تعلیم ان معانی کو اگلی نسل تک پہنچانے کا نام ہے۔ 

اگر ہم اپنے معاشرے کے بارے میں یہ پانچ چیزیں جانتے ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم معاشرے کو جان گئے۔ ورنہ نہیں جانے۔  

Monday 14 November 2011

ہم کیوں نہیں مانتے؟

پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا کہ ہماری دو مشکلیں ہیں: ہم جانتے نہیں اور ہم مانتے نہیں۔ 


کچھ ماہ پہلے میں نے اپنے بعض روشن خیال دوستوں کو پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے دیکھا جس پر ایک ایسا مطالبہ تحریر تھا جسے پاکستانی عوام کی اکثریت شاید کبھی قبول نہ کرتی۔ مطالبہ کرنے والے دوستوں نے اپنے لیے جمہوری فورم یا کوئی ایسا ہی نام تجویز کیا تھا۔ میں نے پوچھا، "جمہوریت سے آپ کی مراد اکثریت کی حکومت ہے ناں؟" انہوں نے بھڑک کر جواب دیا، "ہرگز نہیں۔" یہ بڑی بدقسمتی ہے پاکستانی عوام کی۔ انہیں جمہوریت کے نام پر جمہوریت سے محروم کیا جاتا ہے۔

روشن خیال طبقے کے خیال میں عوام اِس لیے فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ مذہبی ہیں۔ دوسری طرف مذہبی طبقہ انہی عوام کو فیصلے کے حق سے محروم کرنے کے لیے یہ الزام لگاتا ہے کہ یہ مذہب سے دُور ہیں۔

اس ملک کی آزادی برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو دو اصول قائم کیجیے: اول، معاشرے میں وہ ہو گا جو معاشرہ چاہے گا۔  دوم، آپ کو اُس کی آزادی ہونی چاہیے جو آپ چاہیں۔

دوسروں کی بات چھوڑیے۔ کیا آپ یہ دونوں اُصول اپنانے پر تیار ہیں؟ مجھے آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ اس دوران آپ یہ ویڈیو دیکھیے۔ اِس کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں میرے ایک اُستاد بھی موجود ہیں۔

Sunday 6 November 2011

تعلیم کس چیز کی؟

ہم مشرق کے مسکینوں کا دِل مغرب میں جا اٹکا ہے
 پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا کہ تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھال سکیں۔ اس کے لیے دو  باتیں ضروری ہیں:  اپنے معاشرے کے بارے میں جانتے ہوں، اور مانتے ہوں۔ 

کوئی غیر قوم بھی کہیں حکومت کرتی ہے تو اُس معاشرے کے بارے میں گہری معلومات حاصل کرتی ہے۔ البتہ ضروری نہیں کہ وہ اُس معاشرے کی خواہشات کا احترام بھی کرتی ہو۔

انگریزوں نے جنگِ پلاسی کے کچھ ہی عرصہ بعد کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کر لیا تھا جس کا مقصد انگریز افسروں کو برِصغیر کے رہن سہن، زبان، مذہب اور تاریخ وغیرہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنا تھا۔ 

چنانچہ انگریز افسران اس ملک کے بارے میں اچھی خاصی معلومات حاصل کرتے تھے، یہاں کے رہن سہن سے واقف ہوتے تھے یہاں تک کہ ان میں سے بعض اُردو میں شاعری بھی کرتے تھے۔ تب کہیں انگریز یہاں حکومت کرنے کے قابل ہوئے۔

وہ غیر تھے۔ اب ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ اپنے معاشرے کے بارے میں کیا اُتنی بھی آگاہی ہمیں ہے جتنی انگریز افسروں کو ہوتی تھی؟

یہ ہماری پہلی مشکل ہے کہ ہم اپنے بارے میں جانتے نہیں ہیں۔ ہماری دوسری مشکل یہ ہے کہ ہم اپنی بات مانتے نہیں ہیں۔ اُس کے بارے  میں اگلی دفعہ عرض کروں گا۔ انتظار فرمایے:۔ 

Friday 4 November 2011

تعلیم کا مقصد

یہ گدھا نہیں ہمارا معیارِ تعلیم ہے۔
بلند ہو رہا ہے۔
 ہم اپنا معیارِ تعلیم کس طرح بلند کر رہے ہیں، تصویر ملاحظہ فرمایے۔

گاڑی ہمارا تعلیمی نظامِ ہے، اُس کے آگے جو معزز جانور بندھا ہوا ہے وہ ہمارا معیارِ تعلیم ہے۔ گاڑی میں اِتنے بنڈل رکھ دیے گئے ہیں کہ بیچارہ معیارِ تعلیم  ہوا میں معلق ہو گیا ہے۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، شائد یہ وہاں پہنچ جائے کیونکہ اب اِس کا رُخ آسمانوں کی طرف ہو گیا ہے۔ مگر زمین پر تو دو قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔

تعلیم کو سب اچھا کہتے ہیں مگر کوئی نہیں بتاتا کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے۔ گھسی پٹی باتیں مت کیجیے۔ اچھا انسان وغیرہ بننے کے لیے تعلیم کوئی شرط نہیں۔ تہذیب اور شائستگی میں بھی آج کل تو اَن پڑھ لوگ انگریزی پڑھے ہوئے نوجوانوں سے آگے نظر آتے ہیں۔ دنیاوی کامیابی کی بات بھی مت کیجیے کہ بقول ابن انشا: تعلیم بڑی دولت ہے مگر جس کے پاس تعلیم ہوتی ہے اُس کے پاس دولت کیوں نہیں ہوتی اور جس کے پاس دولت ہوتی ہے اُس کے پاس تعلیم کیوں نہیں ہوتی؟

تعلیم کا صرف ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ اپنے معاشرے کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہو سکیں۔ آپ جہاں رہتے ہیں وہاں کے حکمراں بن جائیں۔ 

مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ میں ضرور پہنچیں۔ بلکہ جس شعبے میں بھی ہوں اپنے ملک کو چلانے، اُس کی راہ متعین کرنے اور معاشرے کے بارے میں فیصلے کرنے میں آپ اُتنا ہی حصہ لے رہے ہوں جتنا کہ حکومت۔ بلکہ حکومت کا کام صرف آپ کے فیصلوں کو نافذ کرنا ہو۔  

کیا ہماری تعلیم ہمیں اِس کے لیے تیار کرتی ہے؟ کیا یہ تعلیم ہمیں اِن معانی میں یا کسی بھی معانی میں "حکمرانی" کے قابل بناتی ہے؟

یہ مت کہیے کہ ہمارا معاشرہ ہی ایسا ہے کہ صرف جاہل اور دولتمند منتخب کیے جاتے ہیں۔ محمد علی جناح سے زیادہ ووٹ کس نے حاصل کیے ہوں گے؟ علامہ اقبال بھی اسمبلی کا الیکشن لڑے اور کامیاب ہوئے۔ ہمارے پہلے وزیراعظم ایک نواب کے بیٹے سہی مگر وزیراعظم بننے تک اُن کے پاس شاید صرف پھوٹی کوڑی ہی رہ گئی تھی اور مَرتے ہوئے تو بیوی بچوں کے لیے سر چھپانے کو  چھَت بھی نہیں چھوڑ کر گئے۔

وہ ہمارا آغاز تھا۔ اگر اُس کے بعد جاہل، ظالم اور حرام خور ہم پر حکومت کرنے لگے تو وجہ یہی تھی کہ انگریزوں کے جاتے ہی ہم نے نظامِ تعلیم بدل دیا۔ یہ اچھی بات تھی۔ مگر دانشوروں کی عقلوں پر پتھر پڑے ہوئے تھے کہ نیا نظامِ تعلیم بھی مغربی ماہرین ہی سے بنوایا۔ یعنی شکار خود شکاری کے پاس گیا کہ رنجش ہی سہی، دل ہی دُکھانے کے لیے آ۔

ذرا اُردو بازار کا چکر لگا کر پرانی درسی کتابیں تلاش کیجیے۔ معلوم ہو گا کہ 1953کے لگ بھگ ہماری درسی کتابیں موسسہ فرینکلن کی مدد سے تیار ہونے لگی تھیں۔ سِلور برڈٹ کمپنی دیدہ زیب کتابیں اُردو میں تیار کر کے ہمیں دے رہی تھی۔ غیر کی دہلیز پر ماتھا ٹیکنے سے معیارِ تعلیم بلند ہو رہا تھا۔

ہمارا معیارِ تعلیم اُسی طرح بلند ہوا جیسے تصویر میں گدھے کے پاوں بلند ہوئے ہیں۔ تعلیم نے ہمیں یہ نہیں سکھایا کہ اپنے ملک کی گاڑی کو دو قدم بھی آگے کیسے بڑھایا جاتا ہے۔ اپنے معاشرے کے لیے کوئی نئی راہ اختیار کرنی ہو تو کیسے کرتے ہیں؟

آپ نے بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ملک پر حکومت کیسے کی جاتی ہے؟ نہیں معلوم ناں۔ آئیے اِسی بات پر ویڈیو دیکھتے ہیں: