پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا کہ ہماری دو مشکلیں ہیں: ہم جانتے نہیں اور ہم مانتے نہیں۔
کچھ ماہ پہلے میں نے اپنے بعض روشن خیال دوستوں کو پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے دیکھا جس پر ایک ایسا مطالبہ تحریر تھا جسے پاکستانی عوام کی اکثریت شاید کبھی قبول نہ کرتی۔ مطالبہ کرنے والے دوستوں نے اپنے لیے جمہوری فورم یا کوئی ایسا ہی نام تجویز کیا تھا۔ میں نے پوچھا، "جمہوریت سے آپ کی مراد اکثریت کی حکومت ہے ناں؟" انہوں نے بھڑک کر جواب دیا، "ہرگز نہیں۔" یہ بڑی بدقسمتی ہے پاکستانی عوام کی۔ انہیں جمہوریت کے نام پر جمہوریت سے محروم کیا جاتا ہے۔
کچھ ماہ پہلے میں نے اپنے بعض روشن خیال دوستوں کو پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے دیکھا جس پر ایک ایسا مطالبہ تحریر تھا جسے پاکستانی عوام کی اکثریت شاید کبھی قبول نہ کرتی۔ مطالبہ کرنے والے دوستوں نے اپنے لیے جمہوری فورم یا کوئی ایسا ہی نام تجویز کیا تھا۔ میں نے پوچھا، "جمہوریت سے آپ کی مراد اکثریت کی حکومت ہے ناں؟" انہوں نے بھڑک کر جواب دیا، "ہرگز نہیں۔" یہ بڑی بدقسمتی ہے پاکستانی عوام کی۔ انہیں جمہوریت کے نام پر جمہوریت سے محروم کیا جاتا ہے۔
روشن خیال طبقے کے خیال میں عوام اِس لیے فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ مذہبی ہیں۔ دوسری طرف مذہبی طبقہ انہی عوام کو فیصلے کے حق سے محروم کرنے کے لیے یہ الزام لگاتا ہے کہ یہ مذہب سے دُور ہیں۔
اس ملک کی آزادی برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو دو اصول قائم کیجیے: اول، معاشرے میں وہ ہو گا جو معاشرہ چاہے گا۔ دوم، آپ کو اُس کی آزادی ہونی چاہیے جو آپ چاہیں۔
دوسروں کی بات چھوڑیے۔ کیا آپ یہ دونوں اُصول اپنانے پر تیار ہیں؟ مجھے آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ اس دوران آپ یہ ویڈیو دیکھیے۔ اِس کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں میرے ایک اُستاد بھی موجود ہیں۔
No comments:
Post a Comment