Pages

Saturday, 26 November 2011

ملت کا پاسباں

ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح
علامہ اقبال کی شاعری جس مقام پر پہنچ کر ختم ہوئی وہ اُس منزل کا انتظار تھا جہاں قوم ایک روح کی طرح متحد ہو کر آزاد اسلامی ریاست کے لیے جدوجہد کرے۔ یہ منزل مارچ ۱۹۴۰ء میں آئی جب لاہور میں قراردادِ پاکستان پیش ہوئی۔ مسلم لیگ کے اس تاریخی اجلاس میں ایک نظم پڑھی گئی جسے علامہ اقبال کے بعد ہماری شاعری کا اگلا موڑ سمجھنا چاہیے: ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح۔

شاعر کا نام میاں بشیر احمد تھا۔ برسوں پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تاریخ میں  ڈگری لے کر اور لندن سے بیرسٹری کی سند حاصل کر کے وطن واپس آئے تھے اور ۱۹۱۸ میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں اپنے آپ کو قوم کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسلامیہ کالج میں پروفیسری شروع کی۔ 

ان کے والد میاں شاہ دین ہمایوں لاہور کی ممتاز سماجی اور ادبی شخصیت تھے۔ علامہ اقبال کے ادبی سرپرستوں میں سے تھے۔ فوت ہوئے تو میاں بشیر نے ان کی یاد میں رسالہ ہمایوں نکالا جو بہت جلد ایک انتہائی اہم ادبی اور تفریحی رسالہ بن گیا۔ اس کے پہلے شمارے کے لیے نظم کی درخواست لے کر علامہ اقبال کے پاس گئے تو علامہ نے شاہ دین ہمایوں کی یاد میں وہ نظم لکھی جو بانگِ درا میں 'ہمایوں' کے نام سے شامل ہے اور جس کا آخری شعر بیحد مشہور ہے۔۔۔

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی

تحریک پاکستان شروع ہوئی تو میاں بشیر احمد نے طلبہ کو مطالبہء پاکستان کے  لیے تیار کرنے میں دوسروں سے کچھ زیادہ ہی حصہ لیا۔ قائد اعظم بھی قدر کرتے تھے۔

کیا ایسا شخص اِس قابل بھی نہیں ہے کہ ہم اُسے شاعروں میں شمار کریں اور اُس کی شاعری پر سنجیدگی سے بات کریں؟ بدقسمتی سے ہمارے ادب کے ٹھیکیداروں نے یہی رویہ اپنایا ہے۔ شاید اس لیے کہ اگر علامہ اقبال کے بعد ہم میاں بشیر احمد پر پہنچ جائیں تو ہمارے ادب کی گاڑی کے پٹری سے اُترنے کا امکان بہت کم ہو جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے بڑے ادیبوں کی پوری کوشش ہی یہی رہی ہے کہ ادب کی گاڑی کو ہائی جیک کر کے ماسکو، پیرس یا کہیں اور لے جائیں۔

میاں بشیر احمد کی نظم کی پہلی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ علامہ اقبال نے جن چیزوں کا تذکرہ محض تصور کے طور پر کیا تھا یا انہیں مستقبل میں حاصل کرنے کی امید دلائی تھی، یہ نظم اعلان کرتی تھی کہ وہ چیزیں اب حقیقت کے روپ میں ہمارے سامنے آ گئی ہیں۔ قوم کی روح، تقدیر کی اذاں، کارواں کا دوبارہ روانہ ہونا، وغیرہ وغیرہ یہ سب استعارے علامہ کی شاعری سے ماخوذ تھے جنہیں استعمال کرتے ہوئے میاں بشیر نے بتا دیا کہ اب ہمیں ان اشاروں کے لیے مستقبل کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، صرف اسٹیج کی طرف دیکھنا کافی ہے جہاں محمد علی جناح مسلمانوں کے قائدِ اعظم کے روپ میں بیٹھے ہیں۔

دوسری خصوصیت یہ ہے کہ الفاظ اگرچہ وہی ہیں جو علامہ کی شاعری میں اکثر استعمال ہوئے اور عموماً فارسی آمیز ہیں، مگر میاں بشیر کی نظم میں وہ ذرا آسان ہو جاتے ہیں۔ گویا یہ نظم ایک رابطہ ہے جس کے ذریعے ہم نئے زمانے کی آسان اُردو سے شروع کر کے علامہ اقبال کی اُردو تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ رابطہ ٹوٹ جانے سے علامہ اقبال کے زمانے کی اُردو سمجھ میں آنا مشکل ہو جاتی ہے۔

تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ نظم مسلمان عوام میں بالکل اُسی طرح مقبول ہوئی جس طرح علامہ اقبال کی نظمیں مقبول ہوتی تھیں۔


ہم نے اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں جدید اُردو ادب اور جدید اُردو شاعری کےہ نام پر جو کچھ پڑھا ہے، جھک ماری ہے۔ آئیے آج پہلا سبق لیں: جدید اُردو شاعری یعنی علامہ اقبال کے بعد کی شاعری کا آغاز اسی نظم سے ہوتا ہے جو میاں بشیر احمد نے لکھی اور ۲۲ مارچ کو یعنی قرارداد پاکستان سے ایک روز قبل تاریخی جلسے میں پڑھی گئی اور جو بچپن سے ہمیں پسند ہے۔ 

کیا آپ کسی نظم کو صرف اِس لیے عظیم شاہکار تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے کہ وہ آپ کو پسند ہے؟ مجھے شبہ ہے کہ آپ نے اب تک شائد یہی کیا ہے۔ اب مت کیجیے۔ 


کسی نظم کے مقام اور مرتبے کا اندازہ اُس زمانے کی دوسری نظموں سے موازنہ کر کے بھی لگایا جاتا ہے۔ اب اندازہ لگائیے کہ جس زمانے میں یہ نظم پیش کی گئی قریباً اُسی زمانے میں فیض احمد فیض کی نظم "مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ" سامنے آئی تھی۔ کیا ہم اُس شخص کو ذہنی بیمار اور روحانی مریض نہیں کہیں گے جس کے خیال میں "مجھ سے پہلی سی محبت" تو ایک عظیم نظم ہو اور "ملت کا پاسباں" سرے سے ادب میں شمار ہونے کے قابل ہی نہ ہو؟


ہمارے پروفیسروں، دانشوروں اور نقادوں نے عموماً یہی کیا ہے۔ اُن کے دماغ خراب ہیں، خدا کے لیے اُن کے پیچھے چلنا چھوڑ دیجیے۔ وہ آپ کو صرف غلامی کے جہنم میں لے جائیں گے کیونکہ انہیں خود وہیں جانا ہے۔ آزادی انہیں راس نہیں آئی۔ وہ آپ کو آپ کے ادب سے، آپ کے ورثے سے محروم کر رہے ہیں۔


یہ آپ کا ادب ہے، آپ کا ورثہ ہے۔ کیا کسی کو حق ہونا چاہیے کہ آپ کو اِس سے محروم کر دے؟ اپنے ورثے کی حفاظت آپ نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟ خدا کے لیے اپنے دل و دماغ سے فیصلہ کرنے کی عادت ڈالیے۔ اُس بیماری سے نجات پائیے جو تعلیم کے زہر نے ہم سب میں پیدا کی ہے۔


ویڈیو دیکھیے اور کمنٹ کے تحت صرف اتنا لکھ دیجیے کہ کیا آپ کے خیال میں یہ ایک عظیم نظم ہے؟ [باقی آیندہ]۔


ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح

صد شکر پھر ہے گرمِ سفر اپنا کارواں
اور میرِ کارواں ہے محمد علی جناح

تصویرِ عزم، جانِ وفا، روحِ حریت
ہے کون؟ بے گماں ہے محمد علی جناح

لگتا ہے ٹھیک جا کے نشانے پہ اُس کا تیر
ایسی کڑی کماں ہے محمد علی جناح

ملت ہوئی ہے زندہ پھر اُس کی پکار سے
تقدیر کی اذاں ہے محمد علی جناح 

4 comments:

Akhtar Wasim Dar said...

اب وہ زمانہ گزر گیا جب ادب زرد جمالیات اور افکار کی زد میں تھا اور نام نہاد لکھنے والے اپنی مخصوص بیٹھکوں ‘ قہوہ خانوں اور محفلوں میں ادبِ عالیہ کی لن ترانیاں کیا کرتے تھے۔ وہ دور لد گئے۔ یہ نظم اک شہکار ہے۔

Namrah Mahmood said...

Never knew the background of the poem or the occasion it was first presented on, but it has been a childhood favourite, and probably for me it was a concise but complete intro to the persona and impact of Muhammad Ali Jinnah. Before i ever read any literary piece on Quaid-e-azam, this poem developed my concept about his charisma and i was in love with this poem.
Felt great reading your post, and realized the impact of the poem and its importance. Thanks for sharing your thoughts about it :)

Ahmad Safi said...

Indeed I would like to be identified with millions of people who love this poem and still hum it and sing it...

نام نہاد ادبِ عالیہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک مخصوص طبقے کے لئے تخلیق کیا جاتا ہے اور اسی طبقے میں پرورش پا کر وہیں اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔۔۔ دنیا کے نوے فیصد مزدور کسان اور محنت کش اس ادب سے بالکل نا بلد ہوں گے جو ان کو موضوع بنا کر لکھا جاتا رہا اور بہتوں کے نام کمانے کا ذریعہ بنتا رہا۔۔۔ لیکن اگر دنیا بھر کے لوک ادب کو دیکھ لیجئے تو اس کی بازگشت کسانوں کی اوطاقوں سے لے کر اونچے ایوانوں تک یکساں سنائی دیتی ہے۔۔۔ ہمارے یہاں بلھے شاہ ہوں کہ شاہ لطیف۔۔۔ اور ہر علاقے کے صوفی، یہ مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں سے لے کر طلبہ و اساتذہ اور پڑھے لکھے لوگوں کے تمام طبقات کو فکری روشنی دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے کلام کے بغیر نہ تو کسی اوطاق کی محفل مکمل ہے اور نہ ہی کسی بین الاقوامی مشروب ساز ادارے کا میوزک اسٹوڈیو۔

یہ بات قابل غور ہے کہ واقعی اقبال کے بعد ان کے خیالات والے ادب کو بیچ سے ختم کردینے کی کوششیں کی گئیں اور اب یہ واضح طور پر ہمارے سامنے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا کہ کون سا ادب ہمیں پڑھنا چاہیئے اور کونسا نہیں بہت آسان ہے۔ جس ادب کو معاشرے کے ہر طبقے میں یکساں مقبولیت حاصل ہو وہی ادب ہماری ضرورت ہے، یہ کلیہ سامنے رکھ لیا جائے تو درست ادب کا تعین از خود ہو جائے گا۔

ہاں ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ میاں بشیر احمد صاحب کی دیگر نظموں کو بھی نکال کر دیکھا جائے ۔۔۔ یقیناً ان میں ہمارے لئے اور بھی بہت کچھ ہو گا جنہیں ہم بھلا بیٹھے ہیں۔۔۔ اور یہ یقین رکھئے کہ ان نظموں کو آج بھی وہی مقبولیت ملے گی جو ان کی اولین اشاعت کے دنوں ملتی رہی ہو گی۔۔۔ صرف انہیں ڈھونڈ نکالنے کی ضرورت ہے۔۔۔

اور اس کے ساتھ ساتھ اس پر نظر رکھنے کی ضرورت بھی ہے کہ آج کے جمہوری ادیب کون ہیں اور وہ کیا کچھ لکھ رہے ہیں۔۔۔ اور کیا ہم ان کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں؟

احمد صفی

Ahmad Safi said...

Indeed I would like to be identified with millions of people who love this poem and still hum it and sing it...

نام نہاد ادبِ عالیہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک مخصوص طبقے کے لئے تخلیق کیا جاتا ہے اور اسی طبقے میں پرورش پا کر وہیں اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔۔۔ دنیا کے نوے فیصد مزدور کسان اور محنت کش اس ادب سے بالکل نا بلد ہوں گے جو ان کو موضوع بنا کر لکھا جاتا رہا اور بہتوں کے نام کمانے کا ذریعہ بنتا رہا۔۔۔ لیکن اگر دنیا بھر کے لوک ادب کو دیکھ لیجئے تو اس کی بازگشت کسانوں کی اوطاقوں سے لے کر اونچے ایوانوں تک یکساں سنائی دیتی ہے۔۔۔ ہمارے یہاں بلھے شاہ ہوں کہ شاہ لطیف۔۔۔ اور ہر علاقے کے صوفی، یہ مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں سے لے کر طلبہ و اساتذہ اور پڑھے لکھے لوگوں کے تمام طبقات کو فکری روشنی دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے کلام کے بغیر نہ تو کسی اوطاق کی محفل مکمل ہے اور نہ ہی کسی بین الاقوامی مشروب ساز ادارے کا میوزک اسٹوڈیو۔

یہ بات قابل غور ہے کہ واقعی اقبال کے بعد ان کے خیالات والے ادب کو بیچ سے ختم کردینے کی کوششیں کی گئیں اور اب یہ واضح طور پر ہمارے سامنے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا کہ کون سا ادب ہمیں پڑھنا چاہیئے اور کونسا نہیں بہت آسان ہے۔ جس ادب کو معاشرے کے ہر طبقے میں یکساں مقبولیت حاصل ہو وہی ادب ہماری ضرورت ہے، یہ کلیہ سامنے رکھ لیا جائے تو درست ادب کا تعین از خود ہو جائے گا۔

ہاں ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ میاں بشیر احمد صاحب کی دیگر نظموں کو بھی نکال کر دیکھا جائے ۔۔۔ یقیناً ان میں ہمارے لئے اور بھی بہت کچھ ہو گا جنہیں ہم بھلا بیٹھے ہیں۔۔۔ اور یہ یقین رکھئے کہ ان نظموں کو آج بھی وہی مقبولیت ملے گی جو ان کی اولین اشاعت کے دنوں ملتی رہی ہو گی۔۔۔ صرف انہیں ڈھونڈ نکالنے کی ضرورت ہے۔۔۔

اور اس کے ساتھ ساتھ اس پر نظر رکھنے کی ضرورت بھی ہے کہ آج کے جمہوری ادیب کون ہیں اور وہ کیا کچھ لکھ رہے ہیں۔۔۔ اور کیا ہم ان کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں؟

احمد صفی