Pages

Tuesday, 13 December 2011

تانگے والے کا قائداعظم

آیے دیکھتے ہیں کہ قائداعظم کس طرح عوام کی بات جاننے کے لیے بیتاب رہتے تھے اور ماننے پر بھی آمادہ تھے [ایک پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا کہ ہماری مشکلیں دو ہیں کہ ہم عوام کی بات جانتے بھی نہیں اور مانتے بھی نہیں]۔ مندرجہ ذیل تحریر قائداعظم کے سیکرٹری  مطلوب الحسن سید کی ہے۔ 

میسور کے نندی پہاڑ پر قائداعظم نے کچھ عرصے قیام کیا۔ وہاں ایک خط موصول ہوا۔ جو آگرے سے آیا تھا۔ خط اُردو میں تھا۔ اور لکھنے والے نے رُول دار کاغذ استعمال کیا تھا جو غالباً کسی رجسٹر سے پھاڑا گیا تھا۔ یہ خط ایک تانگے والے نے لکھا تھا۔ خط گالیوں سے شروع ہوا تھا لیکن بعد میں لکھنے والے نے لکھا تھا کہ ہماری گالیوں کا بُرا نہ مانیں کیونکہ ہم تانگے والوں کی زبان ہی ایسی ہوتی ہے۔ دراصل یہ ہمارے پیار کی زبان ہے۔ 

یہ خط دو قسطوں میں موصول ہوا تھا۔ پہلی قسط میں اس نے لکھا تھا کہ میرے پاس ایک سواری آ گئی ہے۔ اس لیے باقی خط پھر لکھوں گا۔ 

چنانچہ دوسری قسط دوسرے روز مل گئی۔ اس خط کا لبِ لباب یہ تھا کہ راقم الحروف کا سب سے بڑا شکوہ قائداعظم سے یہ تھا کہ قائد نے مسلمانوں کی قیادت کی دوسری سیڑھی کا تعین نہیں کیا۔ اُس نے لکھا تھا کہ قائداعظم تمہاری وفات کے بعد مسلمانوں میں ایک خلا پیدا ہو جائے گا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو سیاست کے مخمصے میں پھنس جانے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے اپنے نیچے کی قیادت کو ابھی سے منظم کرنا شروع کر دو۔ 

قائداعظم نے حسبِ دستور مجھے کہا کہ میں یہ خط پڑھ کر سناوں لیکن میں نے خط کو آغاز سے پڑھ کر سنانے سے انکار کر دیا۔ اور عرض کیا کہ اس میں گالیاں لکھی ہوئی ہیں۔ 

انہوں نے فرمایا کوئی بات نہیں اس کو پڑھو۔ جب میں نے نہ پڑھنے پر اِصرار کیا تو وہ بہت خفا ہوئے اور مجھے جھڑک کر کہا کہ تم کو پڑھنا پڑے گا۔ 

قائداعظم کے اس رویہ سے مجھے سخت صدمہ ہوا اور میں روہانسا ہو گیا۔ لیکن انہوں نے دوبارہ کہا کہ تمہیں خط پڑھنا ہو گا۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ جس ماحول میں میری نشو و نما ہوئی ہے، اس نے میری زبان پر ایسی پابندی لگا دی ہے کہ ایسے الفاظ ادا کرنے کے لیے میری زبان کا پلٹنا مشکل ہے۔ 

اس پر وہ ذرا نرم ہوئے اور کہا کہ اچھا چھوڑ چھوڑ کر پڑھو۔ اس طرح وہ خط میں نے انہیں سنایا۔ لیکن جب میں اُس حصے پر پہنچا جہاں اُس نے قیادت کی دوسری سیڑھی کا ذکر کیا تھا تو اُنہوں نے کہا کہ دیکھو یہ خط معمولی نہیں ہے۔ اس تانگے والے نے بڑی دُوراندیشی کا ثبوت دیا ہے۔ اس خط کا اُسے جواب ضرور جانا چاہیے۔ 

لیکن تانگے والے نے اپنا خط کا پتا نہیں لکھا تھا۔ اس کا انہیں بیحد رنج ہوا۔ پھر مجھ سے کہا اس خط کا انگریزی میں ترجمہ کر کے مجھے دو۔

دو تین روز بعد انہوں نے اس خط کو پھر نکالا اور مجھ سے کہا کہ سیاست میں ٹھنڈے مزاج کی ضرورت ہے۔ سیاست میں رہ کر نہ تعریف کا اثر لینا چاہیے اور نہ گالیوں سے رنجیدہ ہونا چاہیے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے اپنا ضمیر صاف رکھو۔ انہوں نے کہا مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ مسلمانوں کی آیندہ قیادت کے لیے افراد کو منتخب کروں۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمان اپنی قیادت کے لیے خود ہی کسی کو منتخب کر لیں گے۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ مسلمانوں کی سیاست میری ملکیت تو نہیں ہے کہ میں اپنا جانشین مقرر کروں۔

ماخذ: قائداعظم میری نظر میں۔ مرتب زکریا ساجد، ناشر قائداعظم اکادمی کراچی۔ ص145سے 148  

4 comments:

Akhtar Wasim Dar said...

This show how great leader and man Quaid e Azam was, the greatest that we had after khilafat e rashida.

MianTariq said...

But the current dynastic politics in Pakistan stinks and the mindset has to change to save the true logic of the sayings Mr. Jinnah and Iqbal sahibaan.
Eye opener letter.
Thanks for sharing.
Khurram! you may visit my recent post (almost on the same problem).

Daanish said...

Nice post.

Salute to our Quaid.

May Allah SWT bestow His mercy upon him,ameen.

Muhammad Rizwan Jabbar said...

Door-andeshi ka jawab door-andeshi se hi dya gya hai.

One of my most favorite piece of History.