Pages

Tuesday 6 December 2011

واسوخت اور شکوہ

 شیخ عبدالقادر جنہوں نے بانگِ درا کا دیباچہ لکھا، انہوں نے اپنے ایک مضمون میں علامہ اقبال کی نظم 'شکوہ' اور میر تقی میر کی واسوخت کی باہمی مماثلت پر زور دیا ہے۔ میں نے اپنی کتاب اقبال: تشکیلی دَور میں نظم 'شکوہ' کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اس بات کو ذہن میں رکھا۔ 

واسوخت نظم کی وہ قسم تھی جس میں محبوب سے شکایت کی جاتی تھی۔ میر تقی میر کی کلیات میں چار واسوختیں ہیں۔ ان چاروں کا مرکزی خیال یہی ہے کہ میر تقی میر اپنے محبوب سے کہتے ہیں کہ ہم نے ہی تمہاری نازبرداری کر کے تمہیں اتنا معتبر کر دیا کہ ہر شخص تمہاری طرف مائل ہونے لگا۔ اب تم غیروں کو ترجیح دینے لگے ہو اور ہم سے بے رُخی اختیار کی ہے تو ہم بھی کسی اور پر مہربان ہو کر اُسے تم سے زیادہ حسین و جمیل بنا دیں گے۔ لیکن اگر اب بھی مہربان ہو جاو تو ہم آج بھی وہی تمہارے دلدادہ ہیں۔

ظاہر ہے کہ تاریخی اعتبار سے یہ محبوب فارسی زبان بھی ہو سکتی ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے نہ صرف خود فارسی زبان و ادب میں دلچسپی لی تھی بلکہ ایران کے ٹھکرائے ہوئے شاعروں عرفی، ظہوری وغیرہ کو سرآنکھوں ہر بٹھایا تھا جس کے بارے میں علامہ اقبال نے بعد میں کہا

ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے
پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے

میر تقی میر دہلی کے اُن اولین شعرا میں سے ہیں جنہوں نے فارسی میں شعر کہنا چھوڑ کر اُردو شاعری کو معتبر بنایا۔ اس لحاظ سے میر کی واسوخت کا یہ مفہوم لیا جا سکتا ہے۔ 

اِس کے علاوہ دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ محبوب وہ بین الاقوامی مسلمان برادری ہے جس کے ہاتھوں برصغیر کے مسلمانوں نے زِک اٹھائی تھی۔

میر کا مطلب جو بھی ہو لیکن محبوب سے جس طرح انہوں نے شکایت کی بالکل وہی انداز علامہ اقبال نے اپنی نظم 'شکوہ' میں اللہ تعالی سے شکایت کرتے ہوئے اختیار کیا۔

میر کی واسخت کے کئی مصرعے بلکہ پورے بند ایسے ہیں جن کی بازگشت 'شکوہ'  میں صاف سنائی دیتی ہے، مثلاً میر کہتے ہیں

میں بھی ناچار ہوں اب منہ زباں رہتی نہیں

علامہ اقبال کی شکوہ کا پہلا بند ذہن میں لایے جس میں وہ کہتے ہیں

ہے بجا شیوہ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو مجبور ہیں ہم

اسی طرح 'شکوہ' کا وہ مشہور بند ذہن میں رکھیے کہ

ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر کہیں معبود شجر
خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر
تجکو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟
قوتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا

اب میر کی واسخت کا بند ملاحظہ ہو

پیشتر ہم سے کوئی تیرا طلبگار نہ تھا
ایک بھی نرگسِ بیمار کا بیمار نہ تھا
جنس اچھی تھی تری، لیک خریدار نہ تھا
ہم سِوا کوئی ترا رونقِ بازار نہ تھا
کتنے سودائی جو تھے دل نہ لگا سکتے تھے
آنکھیں یوں موند کے وے جی نہ جلا سکتے تھے


اسی بند پر غور کیجیے تو شکوہ کے بعض اور مصرعے بھی ذہن میں آ جائیں گے۔ کون سی قوم فقط تیری طلبگار ہوئی۔ ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اَڑ جاتے تھے۔ وغیرہ وغیرہ


شیخ عبدالقادر نے اپنے مضمون میں کئی مماثلتیں بیان کی ہیں۔ میں اِن دنوں انگلستان میں ہوں اِس لیے وہ مضمون پیش نہیں کر سکتا۔ پھر کبھی سہی۔

1 comment:

کاشر said...

السلام علیکم...اگر آپ پاکستان پہنچ گئے ہیں تو شیخ عبدالقادر کا محولہ بالا مضمون بھی شیئر کروادیں.