انیس سو ستر میں پاکستان میں انتخابات ہوئے۔ عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی۔ ہارنے والے رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے مطالبہ کیا کہ اقتدار میں انہیں شامل کیا جائے ورنہ اگر مغربی پاکستان سے کوئی نمایندہ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں گیا تو بھٹو صاحب اُس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔
انہی دنوں پنجابی فلم "مستانہ ماہی" ریلیز ہوئی۔ فلمساز وحید مراد تھے۔ مصنف حزین قادری تھے۔ فلم مقبول ہوئی۔
اُس زمانے میں فلموں میں سیاسی تبصرے کرنا بہت مشکل تھا۔ سینسر پوری فلم پر پابندی لگا سکتا تھا۔ مشرقی پاکستان کا مسئلہ تو اِتنا نازک تھا کہ جیل جانے کی نوبت بھی آ سکتی تھی۔
ان پابندیوں کو ذہن میں رکھ کر مندرجہ ذیل ٹکڑا ملاحظہ کیجیے۔ یہ فلم کا ابتدائی حصہ ہے۔ ایک عورت اپنے گاوں آئی ہے۔ بدمعاش نے اُسے روک لیا ہے۔ شوہر سے مطالبہ کیا ہے کہ دو ہزار روپے ادا کرے، تب بیوی کو واپس آنے دیا جائے گا۔
یہ بدمعاش کون ہے؟ گُرگا کہتا ہے، "آج آپ کا موڈ کچھ فارن کنٹری [بیرونی ملک] جیسا لگتا ہے۔" ہیرو اپنے گاوں کے لوگوں سے شکایت کرتا ہے کہ شریفوں کے گھروں کے فیصلے بدمعاش کی بیٹھک میں کیوں پہنچ گئے ہیں، آپ لوگ مل کر خود ہی کیوں نہیں فیصلے کرتے۔
بدمعاش کہتا ہے، میں دیکھوں گا تم لوگ اپنے فیصلے خود کس طرح کرتے ہو۔
کہیں یہ بدمعاش کوئی فارن کنٹری ہی تو نہیں جو نہیں چاہتا تھا کہ ہم اپنے فیصلے
خود کریں؟ ویڈیو دیکھیے اور فیصلہ کیجیے۔
No comments:
Post a Comment