Pages

Wednesday 30 November 2011

جستجو ٹی وی

حسین حقانی کا استعفیٰ

 امریکہ میں ہمارے سفیر نے جن حالات میں استعفیٰ دیا اُس پر مجھے شبن یاد آیا۔ سوچا کہ بلاگ پر لکھوں مگر باز رہا کہ بدشگونی نہ ہو جائے۔ وہ خودبخود ہو گئی۔ اس لیے اب تفصیل حاضر ہے۔

۔شبن فلم ارمان میں ایک کردار ہے۔ گھر میں ملازم ہے۔ اُس کا تکیہ کلام ہے، "جھوٹ بولت ہیں تو بیوقوف کہلاوَت ہیں۔ سچ بولت ہیں تو مار کھاوَت ہیں۔ بس ہو گیا فیصلہ: ہم ناہی کریں گے نوکری۔" [جھوٹ بولتے ہیں تو بیوقوف کہلاتے ہیں۔ سچ بولتے ہیں تو مار کھاتے ہیں۔ بس ہو گیا فیصلہ: ہم نہیں کریں گے نوکری]۔

فلم کے ساتویں حصے میں یوں ہوتا ہے کہ میاں شبن جس گھر میں کام کرتے ہیں وہاں ایک غلط قسم کا خط پہنچاتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔ 

"کم بخت نمک حرام تو یہاں قاصد کا کام کب سے کر رہا ہے؟"

"ہم کو مارَت کاہے ہو سرکار۔۔۔"

سفیر صاحب کے استعفے سے پہلے جو واقعات پیش آئے اُن کے بارے میں پڑھتے ہوئے مجھے یہ مکالمہ بیساختہ یاد آیا۔ رہا بدشگونی کا معاملہ تو فلم میں اِس منظر کے کچھ ہی دیر بعد وہ شخص جس نے خط بھیجا تھا، گھر میں گُھس کر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ فلم کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن یہاں معاملہ دو ممالک کا تھا لہِٰذا ایسی منحوس بات لکھنا مجھے کچھ اچھا نہ لگا۔ 

دو چار دنوں میں وہ منحوس بات ہو ہی گئی۔ امریکی افواج نے پاکستانی سپاہیوں پر حملہ بھی کر دیا۔

خدا کرے کہ باقی سب خیریت رہے۔ بہرحال اب آپ فلم کے دونوں مناظر کی ویڈیو دیکھ سکتے ہیں۔ پہلے وہ خط پکڑے جانا والا واقعہ ملاحظہ فرمایے۔ اگر آپ تفریح کے مُوڈ میں ہوں تو شبن کو سفیر، ناصر یعنی وحید مراد کو پاکستانی عوام اور خاتونِ خانہ کو اپنی حکومت بھی سمجھ سکتے ہیں۔  


۔اب ہیرو کے گھر میں ولن کے حملہ آور ہونے کا منظر دیکھیے۔



پچھلی چند پوسٹس کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گئی تھیں لہٰذا آج کچھ اور سہی۔ پھر بھی آپ مجھ سے علامہ اقبال کا کوئی شعر سننے ہی پر مصر ہوں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ 
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

Sunday 27 November 2011

اُردو ادب کے عناصرِ خمسہ

کالجوں میں ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ اُردو ادب کے پانچ عناصرِ خمسہ ہیں: سر سید احمد خاں، مولانا حالی، مولانا شبلی نعمانی، مولانا محمد حسین آزاد اور ڈپٹی نذیر احمد۔ کیا یہ بات درست ہے؟

اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِن پانچوں بزرگوں نے جدید اُردو ادب کی تعمیر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا مگر اِنہیں جس طرح عناصرِ خمسہ کی ترکیب میں جوڑا جاتا ہے وہ بیسویں صدی کے شروع میں اُس وقت کیا گیا جب اُس وقت کے ادیبوں کی نئی نسل مولانا حالی کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹنے لگی تھی۔

مولانا حالی کا بتایا ہوا راستہ یہ تھا کہ ادب کی قدر و قیمت قومی مقاصد کی روشنی میں متعین کی جاتی ہے۔ 

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سر سید، مولانا حالی اور مولانا شبلی نعمانی دوقومی نظریے کے امین تھے۔ انہوں نے ادب کی بنیاد قومی مقاصد پر رکھی۔ اس کے علاوہ ان تینوں بزرگوں کی نمایاں خصوصیت عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھی جس کے بارے میں مزید کچھ عرض کروں گا۔

مولانا محمد حسین آزاد اور ڈپٹی نذیر احمد کا معاملہ کچھ اور تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی خدمات سنہرے لفظوں میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ ہمارے طلبہ کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان دونوں نے انگریزی ادب سے انشاپردازی اور ناول کی اصناف کو اُردو میں منتقل کرتے ہوئے بعض ایسی اختراعات کیں جو انگریزی میں موجود نہیں تھیں۔ ان کی وجہ سے اُردو ادب کا دامن زیادہ وسیع ہو گیا جس کا اندازہ ہمیں ابھی تک نہیں ہے۔ 

لیکن یہ دونوں بزرگ قومی محبت کے اُس تصور کے مبلغ نہیں تھے جو بقیہ تین بزرگوں نے پیش کیا تھا۔ شبلی کا ہیرو اورنگزیب تھا، آزاد کا ہیرو اکبرِ اعظم تھا۔ 

مولانا حالی نے شیخ سعدی شیرازی کی سوانح لکھی اور اُنہیں اپنا پیر و مرشد قرار دیا، اِسی طرح شبلی نعمانی نے سوانح مولانا روم لکھی۔ مگر ڈپٹی نذیر احمد نے شیخ سعدی کی گلستان پر اعتراض کیا کہ اس کے بعض حصے فحش ہیں اس لیے یہ کتاب طلبہ کو پڑھائے جانے کے لائق نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ پھر مولانا روم کی مثنوی کے بارے میں بھی ان کی یہی رائے رہی ہو گی۔

چنانچہ یہ ظاہر ہے کہ ان بزرگوں کے درمیان اس بات پر کچھ اختلاف ضرور تھا کہ ادب کے معاملے میں قوم کو کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ آخر میں قوم نے پانچوں بزرگوں کو عزت احترام کا مقام دیا مگر رہنمائی صرف سر سید، حالی اور شبلی کی قبول کی جبکہ آزاد اور نذیر احمد کے مشورے کو قوم نے قبول نہ کیا۔ 

جہاں تک عشق رسول کا معاملہ ہے ہمارے ادب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ کہ 1867میں سر سید احمد خاں نے جب خطبات احمدیہ لکھنے کا ارادہ کیا وہاں سے لے کر 1947تک پورے اسی برس ہمارے ادب پر ایسا دَور رہا جب عشق رسول کے سوا ہمارے پاس کوئی اور موضوع تھا ہی نہیں۔ سر سید کی سب سے اہم تصنیف کون سی ہے؟ خطباتِ احمدیہ۔ مولانا حالی کی سب سے مشہور نظم کون سی ہے؟ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا۔ مولانا شبلی کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ سیرۃ النبی۔ علامہ اقبال کی شاعری میں کون سا جذبہ سب سے زیادہ نمایاں ہے؟ عشق رسول۔

اُس زمانے کے بعض بزرگوں کی روایات ہم تک پہنچی ہیں۔ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں بازار حُسن میں بھی مولانا حالی کی یہ نعت گائی جاتی تھی: وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا۔ یہ طاقت تھی اُس ادب کی اور یوں اُس نے معاشرے پر سحر قائم کیا تھا کہ مسجد سے لے کر گناہوں کے محلے تک کسی کو نہیں چھوڑا تھا۔

صوفیوں میں ایک مقولہ ہے کہ اگر کوئی مرید چالیس دن تک اپنے پِیر و مرشد کا
 تصور کرے تو اُسے مستقبل کی باتیں بھی معلوم ہو جاتی ہیں، غیب کے بعض اسرار خدا کی مرضی سے اُس پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ بات درست ہے یا نہیں لیکن میں اکثر یہ ضرور سوچتا ہوں کہ جس قوم نے اَسی برس تک سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ڈوبنے ہی کو اپنا علم، ادب، تفریح اور سب کچھ قرار دیا ہو اُس کا مستقبل شاید خدا نے کچھ محفوظ کر دیا ہو۔  

خیر وہ ایک الگ بات ہے۔ اب آپ ویڈیو دیکھیے: وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے 
والا۔

Saturday 26 November 2011

ملت کا پاسباں

ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح
علامہ اقبال کی شاعری جس مقام پر پہنچ کر ختم ہوئی وہ اُس منزل کا انتظار تھا جہاں قوم ایک روح کی طرح متحد ہو کر آزاد اسلامی ریاست کے لیے جدوجہد کرے۔ یہ منزل مارچ ۱۹۴۰ء میں آئی جب لاہور میں قراردادِ پاکستان پیش ہوئی۔ مسلم لیگ کے اس تاریخی اجلاس میں ایک نظم پڑھی گئی جسے علامہ اقبال کے بعد ہماری شاعری کا اگلا موڑ سمجھنا چاہیے: ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح۔

شاعر کا نام میاں بشیر احمد تھا۔ برسوں پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تاریخ میں  ڈگری لے کر اور لندن سے بیرسٹری کی سند حاصل کر کے وطن واپس آئے تھے اور ۱۹۱۸ میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں اپنے آپ کو قوم کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسلامیہ کالج میں پروفیسری شروع کی۔ 

ان کے والد میاں شاہ دین ہمایوں لاہور کی ممتاز سماجی اور ادبی شخصیت تھے۔ علامہ اقبال کے ادبی سرپرستوں میں سے تھے۔ فوت ہوئے تو میاں بشیر نے ان کی یاد میں رسالہ ہمایوں نکالا جو بہت جلد ایک انتہائی اہم ادبی اور تفریحی رسالہ بن گیا۔ اس کے پہلے شمارے کے لیے نظم کی درخواست لے کر علامہ اقبال کے پاس گئے تو علامہ نے شاہ دین ہمایوں کی یاد میں وہ نظم لکھی جو بانگِ درا میں 'ہمایوں' کے نام سے شامل ہے اور جس کا آخری شعر بیحد مشہور ہے۔۔۔

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی

تحریک پاکستان شروع ہوئی تو میاں بشیر احمد نے طلبہ کو مطالبہء پاکستان کے  لیے تیار کرنے میں دوسروں سے کچھ زیادہ ہی حصہ لیا۔ قائد اعظم بھی قدر کرتے تھے۔

کیا ایسا شخص اِس قابل بھی نہیں ہے کہ ہم اُسے شاعروں میں شمار کریں اور اُس کی شاعری پر سنجیدگی سے بات کریں؟ بدقسمتی سے ہمارے ادب کے ٹھیکیداروں نے یہی رویہ اپنایا ہے۔ شاید اس لیے کہ اگر علامہ اقبال کے بعد ہم میاں بشیر احمد پر پہنچ جائیں تو ہمارے ادب کی گاڑی کے پٹری سے اُترنے کا امکان بہت کم ہو جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے بڑے ادیبوں کی پوری کوشش ہی یہی رہی ہے کہ ادب کی گاڑی کو ہائی جیک کر کے ماسکو، پیرس یا کہیں اور لے جائیں۔

میاں بشیر احمد کی نظم کی پہلی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ علامہ اقبال نے جن چیزوں کا تذکرہ محض تصور کے طور پر کیا تھا یا انہیں مستقبل میں حاصل کرنے کی امید دلائی تھی، یہ نظم اعلان کرتی تھی کہ وہ چیزیں اب حقیقت کے روپ میں ہمارے سامنے آ گئی ہیں۔ قوم کی روح، تقدیر کی اذاں، کارواں کا دوبارہ روانہ ہونا، وغیرہ وغیرہ یہ سب استعارے علامہ کی شاعری سے ماخوذ تھے جنہیں استعمال کرتے ہوئے میاں بشیر نے بتا دیا کہ اب ہمیں ان اشاروں کے لیے مستقبل کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، صرف اسٹیج کی طرف دیکھنا کافی ہے جہاں محمد علی جناح مسلمانوں کے قائدِ اعظم کے روپ میں بیٹھے ہیں۔

دوسری خصوصیت یہ ہے کہ الفاظ اگرچہ وہی ہیں جو علامہ کی شاعری میں اکثر استعمال ہوئے اور عموماً فارسی آمیز ہیں، مگر میاں بشیر کی نظم میں وہ ذرا آسان ہو جاتے ہیں۔ گویا یہ نظم ایک رابطہ ہے جس کے ذریعے ہم نئے زمانے کی آسان اُردو سے شروع کر کے علامہ اقبال کی اُردو تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ رابطہ ٹوٹ جانے سے علامہ اقبال کے زمانے کی اُردو سمجھ میں آنا مشکل ہو جاتی ہے۔

تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ نظم مسلمان عوام میں بالکل اُسی طرح مقبول ہوئی جس طرح علامہ اقبال کی نظمیں مقبول ہوتی تھیں۔


ہم نے اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں جدید اُردو ادب اور جدید اُردو شاعری کےہ نام پر جو کچھ پڑھا ہے، جھک ماری ہے۔ آئیے آج پہلا سبق لیں: جدید اُردو شاعری یعنی علامہ اقبال کے بعد کی شاعری کا آغاز اسی نظم سے ہوتا ہے جو میاں بشیر احمد نے لکھی اور ۲۲ مارچ کو یعنی قرارداد پاکستان سے ایک روز قبل تاریخی جلسے میں پڑھی گئی اور جو بچپن سے ہمیں پسند ہے۔ 

کیا آپ کسی نظم کو صرف اِس لیے عظیم شاہکار تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے کہ وہ آپ کو پسند ہے؟ مجھے شبہ ہے کہ آپ نے اب تک شائد یہی کیا ہے۔ اب مت کیجیے۔ 


کسی نظم کے مقام اور مرتبے کا اندازہ اُس زمانے کی دوسری نظموں سے موازنہ کر کے بھی لگایا جاتا ہے۔ اب اندازہ لگائیے کہ جس زمانے میں یہ نظم پیش کی گئی قریباً اُسی زمانے میں فیض احمد فیض کی نظم "مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ" سامنے آئی تھی۔ کیا ہم اُس شخص کو ذہنی بیمار اور روحانی مریض نہیں کہیں گے جس کے خیال میں "مجھ سے پہلی سی محبت" تو ایک عظیم نظم ہو اور "ملت کا پاسباں" سرے سے ادب میں شمار ہونے کے قابل ہی نہ ہو؟


ہمارے پروفیسروں، دانشوروں اور نقادوں نے عموماً یہی کیا ہے۔ اُن کے دماغ خراب ہیں، خدا کے لیے اُن کے پیچھے چلنا چھوڑ دیجیے۔ وہ آپ کو صرف غلامی کے جہنم میں لے جائیں گے کیونکہ انہیں خود وہیں جانا ہے۔ آزادی انہیں راس نہیں آئی۔ وہ آپ کو آپ کے ادب سے، آپ کے ورثے سے محروم کر رہے ہیں۔


یہ آپ کا ادب ہے، آپ کا ورثہ ہے۔ کیا کسی کو حق ہونا چاہیے کہ آپ کو اِس سے محروم کر دے؟ اپنے ورثے کی حفاظت آپ نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟ خدا کے لیے اپنے دل و دماغ سے فیصلہ کرنے کی عادت ڈالیے۔ اُس بیماری سے نجات پائیے جو تعلیم کے زہر نے ہم سب میں پیدا کی ہے۔


ویڈیو دیکھیے اور کمنٹ کے تحت صرف اتنا لکھ دیجیے کہ کیا آپ کے خیال میں یہ ایک عظیم نظم ہے؟ [باقی آیندہ]۔


ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح

صد شکر پھر ہے گرمِ سفر اپنا کارواں
اور میرِ کارواں ہے محمد علی جناح

تصویرِ عزم، جانِ وفا، روحِ حریت
ہے کون؟ بے گماں ہے محمد علی جناح

لگتا ہے ٹھیک جا کے نشانے پہ اُس کا تیر
ایسی کڑی کماں ہے محمد علی جناح

ملت ہوئی ہے زندہ پھر اُس کی پکار سے
تقدیر کی اذاں ہے محمد علی جناح 

Tuesday 22 November 2011

ستارہ یا سُورج؟

مصنف، فلمساز اور اداکار وحید مراد
1938-1983
ایسی شخصیات کی مقبولیت کا تجزیہ کر کے معاشرہ اپنے بارے میں جان سکتا ہے۔ 

عام طور پر غیرمعمولی مقبولیت کی وجوہات یہ ہوتی ہیں: سیاسی پس منظر، معاشرے کا ماحول، تاریخی روایات، ادبی اور نفسیاتی استعارے، اقدار اور نصب العین وغیرہ۔

وحید مراد کی غیرمعمولی مقبولیت کا زمانہ مارچ 1966 سے شروع ہوتا ہےجب فلم ارمان ریلیز ہوئی جس کی کہانی اُنہوں نے خود لکھی تھی اور فلمساز بھی وہی تھے۔

چند ماہ پہلے 1965کی جنگ میں کامیابی کے ساتھ اپنے ملک کا دفاع کرنے کے بعد قوم کے حوصلے بلند تھے۔ جنگ کے دوران شروع ہونے والا قومی نغموں اور ترانوں کا دَور ابھی ختم نہیں ہوا تھا بلکہ حُبُ الوطنی پر مبنی ادب کی بہار آئی ہوئی تھی۔ 

دوسری طرف تاشقند کے معاہدے میں فوجی حکومت نے جو شرائط قبول کی تھیں اُنہیں عام طور پر بزدلی سے تعبیر کیا جا رہا تھا۔ یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام کی اُمنگوں کا زیادہ احترام کرتی ہو۔ 

فلم ارمان میں غیرمحسوس طور پر وہی جذبات موجزن تھے جو قومی نغموں میں استعمال ہوئے تھے، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ وہاں محبت کا موضوع وطن تھا اور یہاں محبوب۔ لیکن جو عوام صدیوں سے عشقِ مجازی کی شاعری میں عشقِ حقیقی تلاش کرتے آئے ہوں اُن کے  لیے یہ فرق آخر کتنا اہم ہو سکتا تھا؟ 

یہ اپنی جگہ خود بہت بڑی بات ہے کہ عشقِ مجازی کے لٹریچر میں ایسے جذبات پیش کر دیے جائیں جنہیں آپ وطن سے مخاطب ہو کر کہیں تو آپ کی نظریاتی بنیادوں کی مکمل تشریح بن جائیں۔


دل چاہے تو تجربہ کر لیجیے۔ پاکستان کو مخاطب کر کے مندرجہ ذیل مصرعے پڑھیے اور فیصلہ کیجیے کہ کیا یہ اُس "ارمان"کی مکمل عکاسی نہیں جو پاکستان بنانے والوں کے دلوں میں پاکستان کے لیے تھے؟ 

دیا حوصلہ جس نے جینے کا ہم کو
وہ اِک خوبصورت سا احساس ہو تم
جو مٹتا نہیں دل سے تم وہ یقیں ہو
ہمیشہ جو رہتی ہے وہ آس ہو تم
یہ سوچا ہے ہم نے کہ اب زندگی بھر
تمہاری محبت کو سجدہ کریں گے


فسانہ جو اُلفت کا چھیڑا ہے تم نے
ادھورا نہ رہ جائے یہ سوچ لینا
بچھڑ کے زمانے سے پایا ہے تم کو
کہیں ساتھ تم بھی نہ اب چھوڑ دینا۔۔۔

اسکرین پر وحید مراد کی جو شخصیت اُبھرتی تھی وہ اِس موضوع کے ساتھ انصاف کرتی تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ انگریزی ادب میں ایم اے کیا تھا۔ مطالعہ بیحد وسیع تھا۔ نہ صرف ارمان بلکہ بعد کی فلموں میں بھی عام طور پر اُن کا کردار ایسے شخص کا ہوتا تھا جو اپنے ماحول سے غیرمطمئن ہو کر کسی بہتر آئیڈیل کی جستحو کرتا ہے مگر معاشرے کی اخلاقی اقدار کا محافظ بھی ہے۔

اِس کے علاوہ ایک خاص بات تھی۔ یہ طے ہے کہ ہیرو کو ہیرو نظر آنے کے لیے خوداعتمادی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ اِس کے لیے عام طور پر اداکار ایک ایسے انداز کا سہارا لیتے ہیں جس میں دوسروں کو اہمیت نہ دینے کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ وہ فریم میں داخل ہی یوں ہوتے ہیں جیسے شیر شاہ سوری ہمایوں سے سلطنت چھیننے آیا ہو۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ یہ شخص نہ کسی کی بات سنے گا نہ سمجھے گا۔ یوں آپ اُس کی برتری تسلیم کر لیتے ہیں۔ وہ ہیرو بن جاتا ہے۔ وحید مراد کا معاملہ برعکس تھا۔

 وحید مراد کے حرکات و سکنات اور لب و لہجے سے ایک عجیب قسم کا اشتیاق ظاہر ہوتا تھا جیسے ہر شخص کی بات سننے اور سمجھنے کے لیے بیتاب ہیں۔ اِس خواہش میں آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہیں کہ جس کے دل میں جو کچھ بھی ہے اُسے محسوس کر لیں۔




یہ انداز صرف وحید مراد ہی کے ساتھ آیا۔ دنیا کے بڑے بڑے سُپراسٹارز سے موازنہ کر لیجیے [اگر آپ فلمیں نہیں دیکھتے تو ٹیلی وژن پر نظر آنے والے کمپئرز یا دانشوروں سے موازنہ کر سکتے ہیں]۔ دلیپ کمار، بریڈ پِٹ، امیتابھ بچن، شاہرُخ خان یا کوئی بھی جسے آپ خواہ وحید مراد سے بڑا اسٹار کہیں یا چھوٹا، وہ اِس بات میں مقابلہ نہیں کر سکتا کہ وحید مراد وہ ہیرو ہے جس کی حرکات و سکنات  یعنی پوری باڈی لینگوئج مخاطب کو اہمیت دلوانے میں صرف ہو جاتی ہے۔ وہ اپنا ہیرو ہونا دوسروں کی اہمیت گھٹانے سے نہیں بلکہ بڑھانے سے ثابت کرتا ہے۔ 

 شائد یہ اِس لیے بھی تھا کہ وحید مراد بعد میں اداکار تھے، پہلے ایک مصنف اور فلمساز تھے جن کے پاس کچھ پختہ افکار تھے، پیغام تھے جنہیں وہ دوسروں تک پہنچانا چاہتے تھے۔ 




بُدھ کے روز وحید مراد کی برسی ہے۔ اِسی سلسلے میں یہ پوسٹ لکھی لیکن اب سوچ رہا ہوں کہ اِس میں زیادہ تعریف وحید مراد کی ہوئی ہے یا اُس قوم کی جس نے اپنے لیے سپر اسٹار بھی منتخب کیا تو خاصا سُلجھا ہوا۔ پسند اپنی اپنی، نصیب اپنا اپنا۔  

Friday 18 November 2011

اصلاح کیسے کریں؟

مجھے لگتا ہے کہ ہم سے پہلے کی نسل کے لوگوں میں بھی خامیاں تھیں مگر وہ انہوں نے دُور کر لیں۔ ہم کیسے کریں؟

یہ سوال مجھے کچھ عرصہ پہلے ایک نوجوان طالب علم کی طرف سے ایمیل میں موصول ہوا۔ اُردو بلاگ کی ابتدائی پوسٹس اِسی سوال کا جواب ہیں: تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں اپنے معاشرے کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل بنائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے بارے میں جانتے ہوں اور معاشرے کی اجتماعی رائے پر عمل درآمد کروانے کے لیے تیار بھی ہوں۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ میں جو کچھ بھی کہہ سکتا ہوں وہ اس مختصر سی بات میں آ جاتا ہے۔ باقی محض تشریح ہے، سو وہ بھی پیش کر رہا ہوں۔

اپنے معاشرے کے بارے میں جاننے کی چیزیں پانچ ہیں: تاریخ، ادب، سیاست، مذہب و سائنس اور تعلیم۔ 
  • تاریخ کا مطلب ہے کہ ہماری قوم نے اجتماعی طور پر کون کون سے اہداف مقرر کیے اور انہیں کس طرح حاصل کیا۔
  • ادب اُس چیز کا نام ہے جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جو ہدف قوم نے اپنایا ہے اُس میں کون سے آئیڈیلز یعنی مقاصد چُھپے ہوئے ہیں۔
  • سیاست اُن آئیڈیلز کو عملی جامہ پہناتی ہے جو ہمارے ادب سے برآمد ہوتے ہیں۔
  • مذہب اور سائنس اُس حقیقت کے معانی سمجھاتے ہیں جو مندرجہ بالا عمل سے ہمارے اطراف میں وجود پاتی ہے۔
  • تعلیم ان معانی کو اگلی نسل تک پہنچانے کا نام ہے۔ 

اگر ہم اپنے معاشرے کے بارے میں یہ پانچ چیزیں جانتے ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم معاشرے کو جان گئے۔ ورنہ نہیں جانے۔  

Monday 14 November 2011

ہم کیوں نہیں مانتے؟

پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا کہ ہماری دو مشکلیں ہیں: ہم جانتے نہیں اور ہم مانتے نہیں۔ 


کچھ ماہ پہلے میں نے اپنے بعض روشن خیال دوستوں کو پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے دیکھا جس پر ایک ایسا مطالبہ تحریر تھا جسے پاکستانی عوام کی اکثریت شاید کبھی قبول نہ کرتی۔ مطالبہ کرنے والے دوستوں نے اپنے لیے جمہوری فورم یا کوئی ایسا ہی نام تجویز کیا تھا۔ میں نے پوچھا، "جمہوریت سے آپ کی مراد اکثریت کی حکومت ہے ناں؟" انہوں نے بھڑک کر جواب دیا، "ہرگز نہیں۔" یہ بڑی بدقسمتی ہے پاکستانی عوام کی۔ انہیں جمہوریت کے نام پر جمہوریت سے محروم کیا جاتا ہے۔

روشن خیال طبقے کے خیال میں عوام اِس لیے فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ مذہبی ہیں۔ دوسری طرف مذہبی طبقہ انہی عوام کو فیصلے کے حق سے محروم کرنے کے لیے یہ الزام لگاتا ہے کہ یہ مذہب سے دُور ہیں۔

اس ملک کی آزادی برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو دو اصول قائم کیجیے: اول، معاشرے میں وہ ہو گا جو معاشرہ چاہے گا۔  دوم، آپ کو اُس کی آزادی ہونی چاہیے جو آپ چاہیں۔

دوسروں کی بات چھوڑیے۔ کیا آپ یہ دونوں اُصول اپنانے پر تیار ہیں؟ مجھے آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ اس دوران آپ یہ ویڈیو دیکھیے۔ اِس کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں میرے ایک اُستاد بھی موجود ہیں۔

Sunday 6 November 2011

تعلیم کس چیز کی؟

ہم مشرق کے مسکینوں کا دِل مغرب میں جا اٹکا ہے
 پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا کہ تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھال سکیں۔ اس کے لیے دو  باتیں ضروری ہیں:  اپنے معاشرے کے بارے میں جانتے ہوں، اور مانتے ہوں۔ 

کوئی غیر قوم بھی کہیں حکومت کرتی ہے تو اُس معاشرے کے بارے میں گہری معلومات حاصل کرتی ہے۔ البتہ ضروری نہیں کہ وہ اُس معاشرے کی خواہشات کا احترام بھی کرتی ہو۔

انگریزوں نے جنگِ پلاسی کے کچھ ہی عرصہ بعد کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کر لیا تھا جس کا مقصد انگریز افسروں کو برِصغیر کے رہن سہن، زبان، مذہب اور تاریخ وغیرہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنا تھا۔ 

چنانچہ انگریز افسران اس ملک کے بارے میں اچھی خاصی معلومات حاصل کرتے تھے، یہاں کے رہن سہن سے واقف ہوتے تھے یہاں تک کہ ان میں سے بعض اُردو میں شاعری بھی کرتے تھے۔ تب کہیں انگریز یہاں حکومت کرنے کے قابل ہوئے۔

وہ غیر تھے۔ اب ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ اپنے معاشرے کے بارے میں کیا اُتنی بھی آگاہی ہمیں ہے جتنی انگریز افسروں کو ہوتی تھی؟

یہ ہماری پہلی مشکل ہے کہ ہم اپنے بارے میں جانتے نہیں ہیں۔ ہماری دوسری مشکل یہ ہے کہ ہم اپنی بات مانتے نہیں ہیں۔ اُس کے بارے  میں اگلی دفعہ عرض کروں گا۔ انتظار فرمایے:۔ 

Friday 4 November 2011

تعلیم کا مقصد

یہ گدھا نہیں ہمارا معیارِ تعلیم ہے۔
بلند ہو رہا ہے۔
 ہم اپنا معیارِ تعلیم کس طرح بلند کر رہے ہیں، تصویر ملاحظہ فرمایے۔

گاڑی ہمارا تعلیمی نظامِ ہے، اُس کے آگے جو معزز جانور بندھا ہوا ہے وہ ہمارا معیارِ تعلیم ہے۔ گاڑی میں اِتنے بنڈل رکھ دیے گئے ہیں کہ بیچارہ معیارِ تعلیم  ہوا میں معلق ہو گیا ہے۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، شائد یہ وہاں پہنچ جائے کیونکہ اب اِس کا رُخ آسمانوں کی طرف ہو گیا ہے۔ مگر زمین پر تو دو قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔

تعلیم کو سب اچھا کہتے ہیں مگر کوئی نہیں بتاتا کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے۔ گھسی پٹی باتیں مت کیجیے۔ اچھا انسان وغیرہ بننے کے لیے تعلیم کوئی شرط نہیں۔ تہذیب اور شائستگی میں بھی آج کل تو اَن پڑھ لوگ انگریزی پڑھے ہوئے نوجوانوں سے آگے نظر آتے ہیں۔ دنیاوی کامیابی کی بات بھی مت کیجیے کہ بقول ابن انشا: تعلیم بڑی دولت ہے مگر جس کے پاس تعلیم ہوتی ہے اُس کے پاس دولت کیوں نہیں ہوتی اور جس کے پاس دولت ہوتی ہے اُس کے پاس تعلیم کیوں نہیں ہوتی؟

تعلیم کا صرف ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ اپنے معاشرے کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہو سکیں۔ آپ جہاں رہتے ہیں وہاں کے حکمراں بن جائیں۔ 

مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ میں ضرور پہنچیں۔ بلکہ جس شعبے میں بھی ہوں اپنے ملک کو چلانے، اُس کی راہ متعین کرنے اور معاشرے کے بارے میں فیصلے کرنے میں آپ اُتنا ہی حصہ لے رہے ہوں جتنا کہ حکومت۔ بلکہ حکومت کا کام صرف آپ کے فیصلوں کو نافذ کرنا ہو۔  

کیا ہماری تعلیم ہمیں اِس کے لیے تیار کرتی ہے؟ کیا یہ تعلیم ہمیں اِن معانی میں یا کسی بھی معانی میں "حکمرانی" کے قابل بناتی ہے؟

یہ مت کہیے کہ ہمارا معاشرہ ہی ایسا ہے کہ صرف جاہل اور دولتمند منتخب کیے جاتے ہیں۔ محمد علی جناح سے زیادہ ووٹ کس نے حاصل کیے ہوں گے؟ علامہ اقبال بھی اسمبلی کا الیکشن لڑے اور کامیاب ہوئے۔ ہمارے پہلے وزیراعظم ایک نواب کے بیٹے سہی مگر وزیراعظم بننے تک اُن کے پاس شاید صرف پھوٹی کوڑی ہی رہ گئی تھی اور مَرتے ہوئے تو بیوی بچوں کے لیے سر چھپانے کو  چھَت بھی نہیں چھوڑ کر گئے۔

وہ ہمارا آغاز تھا۔ اگر اُس کے بعد جاہل، ظالم اور حرام خور ہم پر حکومت کرنے لگے تو وجہ یہی تھی کہ انگریزوں کے جاتے ہی ہم نے نظامِ تعلیم بدل دیا۔ یہ اچھی بات تھی۔ مگر دانشوروں کی عقلوں پر پتھر پڑے ہوئے تھے کہ نیا نظامِ تعلیم بھی مغربی ماہرین ہی سے بنوایا۔ یعنی شکار خود شکاری کے پاس گیا کہ رنجش ہی سہی، دل ہی دُکھانے کے لیے آ۔

ذرا اُردو بازار کا چکر لگا کر پرانی درسی کتابیں تلاش کیجیے۔ معلوم ہو گا کہ 1953کے لگ بھگ ہماری درسی کتابیں موسسہ فرینکلن کی مدد سے تیار ہونے لگی تھیں۔ سِلور برڈٹ کمپنی دیدہ زیب کتابیں اُردو میں تیار کر کے ہمیں دے رہی تھی۔ غیر کی دہلیز پر ماتھا ٹیکنے سے معیارِ تعلیم بلند ہو رہا تھا۔

ہمارا معیارِ تعلیم اُسی طرح بلند ہوا جیسے تصویر میں گدھے کے پاوں بلند ہوئے ہیں۔ تعلیم نے ہمیں یہ نہیں سکھایا کہ اپنے ملک کی گاڑی کو دو قدم بھی آگے کیسے بڑھایا جاتا ہے۔ اپنے معاشرے کے لیے کوئی نئی راہ اختیار کرنی ہو تو کیسے کرتے ہیں؟

آپ نے بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ملک پر حکومت کیسے کی جاتی ہے؟ نہیں معلوم ناں۔ آئیے اِسی بات پر ویڈیو دیکھتے ہیں:

Wednesday 2 November 2011

تعلیم ایک زہر

اُردو میں بلاگ لکھنے کا مجھے تجربہ نہیں ہےلیکن محسوس ہوتا ہے کہ بعض باتیں
 اُردو میں زیادہ دلچسپ معلوم ہوں گی۔ اس لیے "تاحکمِ ثانی" اس بلاگ کو اُردو کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ 

ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پرائیویٹ چینلوں کی وجہ سے نئی نسل اُس اُردو سے بالکل دُور ہو رہی ہے جو ہماری نسل کو سرکاری ٹی وی اور ریڈیو وغیرہ کی بدولت مفت میسر تھی۔ یہ الفاظ "تاحکم ثانی" اور "٘مختص" اسی ورثے کا حصہ ہیں جو بچپن میں پی ٹی وی کے خبرنامے میں اتنی دفعہ سنے کہ یہ پوسٹ لکھتے ہوئے بلاوجہ استعمال کرنے کو دل چاہا۔ چنانچہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ شاید اُردو میں بلاگ لکھ کر نوجوان پڑھنے والوں کو اُردو سے قریب لانے کی اُس کوشش میں حصہ لے سکوں جو بہت سے دل جلے اور دردمند آج کل کر رہے ہیں  [ان میں سے 
بعض اگر کرنا چھوڑ دیں تو اُردو دوبارہ مقبول ہو جائے گی]۔

بات کُھل گئی ہے تو کیوں نہ کُھل کر کی جائے۔ وہ تمام لوگ جو یہ بلاگ پڑھ رہے ہیں اُن میں سے جن کی عمر تیس برس سے کم ہے میں اُن سب سے یہ کہہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو کچھ بھی پڑھایا جاتا ہے اور پڑھایا گیا ہے وہ آپ کو ملک اور قوم کے کسی کام آنے میں مدد نہیں دے سکتا۔ خواہ آپ کا مضمون کوئی بھی رہا ہو، اساتذہ کوئی بھی رہے ہوں اور خواہ آپ نے کہیں سے بھی پڑھا ہو۔

مجھے اس بات میں شبہ نہیں کہ خدا کی مہربانی سے پاکستان میں ابھی ایسے بہت سے اساتذہ ہر سطح پر موجود ہیں جو صحیح رہنمائی کر سکتے ہیں۔ آپ کو بھی میسر آئے ہوں گے۔ لیکن اُن کی وہی باتیں آپ کے کسی کام آ سکی ہیں جن کا تعلق نصاب سے نہیں تھا۔

گزشتہ پچیس برسوں سے جو نصاب ہمارے تعلیمی اداروں میں رائج ہیں وہ نصاب نہیں، زہر ہیں۔ اگر آپ نے کسی اعلیٰ ادارے میں تعلیم حاصل کی تو اعلیٰ درجے کا زہر پیا ہے۔ ادنیٰ ادارے میں تعلیم پائی تو ادنیٰ زہر پیا ہے۔ اگر ملک سے باہر کے کسی ادارے سے ڈگری پانے کی توفیق ملی تو سمجھیے کہ درآمدشدہ زہر پیا۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم ایک زہر نہیں ہے تو سب سے پہلے یہی غلط فہمی اپنے ذہن سے نکال دیجیے تاکہ آپ دوبارہ زندہ ہو جائیں۔

ممکن ہے آپ کو یہ بات کچھ عجیب لگے۔ بالخصوص جو لوگ میرے انگریزی بلاگ پڑھنے کے عادی ہیں انہیں شاید کافی فرق محسوس ہو۔ مجبوری ہے۔ زبان کے ساتھ لہجہ بھی بدل جاتا ہے۔

 بہرحال آج مجھے اسی بات سے آغاز کرنا ہے کہ تعلیم ایک زہر ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ تعلیم حاصل نہ کریں۔ آخر سگریٹ بھی زہر ہے مگر لوگ پیتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک شخص سے ملاقات ہوئی تھی۔ اُس کی ملازمت یہی تھی کہ اونچی اونچی محفلوں میں جا کر لوگوں کو ایک مخصوص برانڈ کے سگریٹ پینے کی ترغیب دے۔ اُس برانڈ والے اُسے بڑی معقول رقم دیتے تھے۔ چنانچہ اُس شخص کے لیے تو سگریٹ کا زہر پینا اپنے پیشے کے لحاظ سے ایک مجبوری تھی جس کی بدولت اُسے کلفٹن میں گھر اور نئی گاڑی ملی ہوئی تھی۔ اسی طرح تعلیم بھی ضرور حاصل کرنی چاہیے جس طرح اُس شخص کو سگریٹ ضرور پینی چاہیے جس کی آمدنی کا انحصار ہی سگریٹ پینے اور پلانے پر ہے۔

لیکن وہ شخص بڑی غلطی کرے گا اگر سمجھنے لگے کہ سگریٹ پینے سے پھیپھڑے مضبوط ہوتے ہیں، دل کی بیماریاں دُور ہوتی ہیں اور کینسر کا علاج ہو جاتا ہے۔ بالکل ایسی ہی غلطی اُس بیچارے کی ہو گی جو سمجھے کہ تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے اُس کے علم میں اضافہ ہوا ہے یا سمجھ بڑھ گئی ہے۔

 کل پرسوں مزید فرصت ملتے ہی اگلی قسط پیش کروں گا تاکہ بات واضح ہو جائے۔  فی الحال آپ ڈنٹونک کا اشتہار دیکھیے۔ کسی نے اپنے دل کی "ایک" مراد پوری  کرنے کے لیے یُوٹیوب پر چڑھایا ہے۔ آمین۔